میں نہ منت کش انگور ہوا خوب ہوا
میں نہ منت کش انگور ہوا خوب ہوا
چشم مخمور سے مخمور ہوا خوب ہوا
شعلۂ آہ مرا نور ہوا خوب ہوا
ان کا گیسو شب دیجور ہوا خوب ہوا
نکہت زلف سے مسرور ہوا خوب ہوا
سانپ کے زہر سے مخمور ہوا خوب ہوا
سر جو قدموں پہ رکھا ہاتھ سے سرکا نہ دیا
عجز پر میرے وہ مغرور ہوا خوب ہوا
آئے پریوں کے پرے وصف کمر کھلوانے
مثل عنقا کے میں مشہور ہوا خوب ہوا
اس جہاں کے نظر آتے ہیں تماشے مجھ کو
دوربیں دیدۂ ناسور ہوا خوب ہوا
اب انا الحق کے کہے پر نہیں مارے جاتے
اس زمانے میں جو منصور ہوا خوب ہوا
پھنس گیا ہے کسی گیسو میں دل خانہ خراب
دشمن جانی سے میں دور ہوا خوب ہوا
میرے درماں ہیں بدل مردم بادام فروش
چشم بیمار سے رنجور ہوا خوب ہوا
اشک سے چشم کے ہم زخم جگر دھوتے ہیں
خون دل بادۂ انگور ہوا خوب ہوا
ہم نے دنیا ہی میں جنت کا مزا لوٹ لیا
مہرباں ہم پہ جو وہ حور ہوا خوب ہوا
بے حجابانہ گلے لگتے ہیں دور اور چلے
چشم بد دور وہ مخمور ہوا خوب ہوا
زانوئے زہرہ جبیناں پہ دھرا رہتا ہے
سر مرا کاسۂ طنبور ہوا خوب ہوا
وعدہ شب کا تھا مجھے دن کو وہ دیکھا تو کہا
نام زنگی اجی کافور ہوا خوب ہوا
کیا ہی خوش گو ہے نسیمؔ اہل سخن کہتے ہیں
باغ ہند آپ سے میسور ہوا خوب ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |