میں سیہ رو اپنے خالق سے جو نعمت مانگتا
میں سیہ رو اپنے خالق سے جو نعمت مانگتا
اپنا منہ دھونے کو پہلے آب خجلت مانگتا
میرے روکھے سوکھے ٹکڑے مجھ کو کر دیتے ہیں سیر
خاک بھر دیتا فلک منہ میں جو نعمت مانگتا
خلق پر ہوتی جو آداب شہادت آشکار
مرغ بسمل بھی تڑپنے کی اجازت مانگتا
رحم ہم آفت رسیدوں پر جو کرتا آسمان
سانس لینے کی ہجوم غم میں مہلت مانگتا
رولتا موتی جو کرتا کشتکاری خیر کی
ہن برستا میں اگر باران رحمت مانگتا
پست بختی نے مجھے محفوظ رکھا شکر ہے
ٹوٹ پڑتا آسماں سر پر جو رفعت مانگتا
قدر میرے گوہر دل کی کچھ اس بت نے نہ کی
بت کدہ لیلام ہوتا میں جو قیمت مانگتا
ایک بوسہ مانگنے پر یار کا رخ پھر گیا
جان میں دیتا اگر وہ بے مروت مانگتا
میں اگر آزادگی میں سرو کو کرتا مرید
تیرا گلدستہ سا قد طوبیٰ سے بیعت مانگتا
دیکھ پاتا کشتگان عشق کا رتبہ اگر
پانی پی پی کر خضر جام شہادت مانگتا
دل میں پڑتے زخم اگر گلزار کی کرتا ہوس
میں لہو روتا اگر باران رحمت مانگتا
کب رہا سیماب جب سیماب چاندی ہو گیا
قلب ماہیت مری ہوتی جو دولت مانگتا
کیا خبر تھی صبح ہو جائے گی تیرے نور سے
شام سے میرا چراغ خانہ رخصت مانگتا
آنکھ جھک جاتی نظر آتا اگر تو خواب میں
تیرے خال رخ سے یوسف داغ حسرت مانگتا
کھائیے کیوں کر نوالے موتیوں کے اے ہوس
طائر دل ہنس کی اے کاش قسمت مانگتا
جوش وحشت لے چلا اتنی نہ مہلت دے مجھے
کوہ و صحرا کے عزیزوں سے تو رخصت مانگتا
دشمنی رکھتا ہے ارباب منش سے آسماں
ہاتھ ملتا عمر بھر دم بھر جو راحت مانگتا
بے دیے ممکن نہیں دنیا میں ہو اجرائے کار
عاملوں سے اسم اعظم بھی ہے دعوت مانگتا
خون عاشق پر کمر باندھے ہوئے ہیں خوبرو
تیغ مصری حلق پر ہوتی جو شربت مانگتا
کیا خبر تھی عاصیوں کی بھی دعا مقبول ہے
بحرؔ دنیا کے بکھیڑے سے فراغت مانگتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |