Jump to content

میٹھی ہے ایسی بات اس کی

From Wikisource
میٹھی ہے ایسی بات اس کی (1893)
by مرزا مسیتابیگ منتہی
317561میٹھی ہے ایسی بات اس کی1893مرزا مسیتابیگ منتہی

میٹھی ہے ایسی بات اس کی
لونڈی ہے اک نبات اس کی

سمجھا نہ میں ایک بات اس کی
مجھ پر کیا کائنات اس کی

عالم ہے بے ثبات اے دل
اک ذات کو ہے ثبات اس کی

مہ اس کا ہے آفتاب اس کا
دن اس کا ہے اور رات اس کی

کس منہ سے کروں میں وصف اس کا
ہے عقل سے دور ذات اس کی

ممبر پہ جو بک رہا ہے واعظ
کب سنتا ہوں خیر بات اس کی

ہے دولت حسن پاس تیرے
دیتا نہیں کیوں زکوٰۃ اس کی

ہے جو کہ شہید تیغ تسلیم
ہے مثل خضر حیات اس کی

دم دے کے نہ نقد دل کو لے لے
چل جائے کہیں نہ گھات اس کی

جو دل کہ ہے غرق بہر دنیا
کیوں کر ہوگی نجات اس کی

دل جاتا ہے سوئے کوئے قاتل
خالق رکھے حیات اس کی

دم دے کے لے آیا یار کو دل
کیا رہ گئی آج بات اس کی

تنہا نہیں منتہیؔ کسی جا
تقدیر ہے اس کے ساتھ اس کی


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%B9%DA%BE%DB%8C_%DB%81%DB%92_%D8%A7%DB%8C%D8%B3%DB%8C_%D8%A8%D8%A7%D8%AA_%D8%A7%D8%B3_%DA%A9%DB%8C