Jump to content

میر کی شاعری

From Wikisource
میر کی شاعری
by وحید الدین سلیم
319496میر کی شاعریوحید الدین سلیم

ایشیا کے شاعر بدنام ہیں کہ ان کا کلام اور ان کی زندگی دونوں مطابق نہیں ہیں مگر یہ مقولہ کہ شاعر کا کلام اس کی زندگی کا آئینہ ہوتا ہے، جتنا میر پر صادق آتا ہے شاید ہی کسی اور شاعر پر صادق آئے۔ ناکامی اور مسرت ویاس جس کو ہم قنوطیت کہتے ہیں، میر کے کلام کا ایک خاص پہلو ہے مگر ان کی زندگی کے اور پہلو بھی ہیں۔ اس لیے ہم قنوطیت کو جو غالب پہلو ہے، علیحدہ رکھ کر میر کی زندگی کے دوسرے پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں، جس کی جھلک ان کے کلام میں پائی جاتی ہے۔

وہ جب کسی شخص کو دولت اور حکومت کی بلندی پر دیکھتے ہیں تو ان کے پاک دل میں حسد کا جذبہ موجزن نہیں ہوتا اور اگر کسی کو افلاس اور پستی کے بھنور میں چکر کھاتے دیکھتے ہیں تو اس کو حقارت کی نظر سے دیکھنا گناہ خیال کرتے ہیں۔ دنیا کے واقعات اور انقلابات سے گھس لے کر ان کے اخلاق میں یکسانیت اور ہمواری پیدا ہو گئی ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں،

اب پست و بلند ایک ہے جوں نقش قدم یاں
پا مال ہوا خوب تو ہموار ہوا میں

دنیا میں جن لوگوں کو دولت و حکومت حاصل ہوئی ہے، وہ اس بات کو کبھی پسند نہیں کرتے کہ ان کے مقابلہ میں کوئی دوسرا شخص پستی کی حالت سے ابھر کر بلندی پر پہنچ جائے اور ان کے ساتھ ہمسری کرنے لگے۔ اس حالت میں ضروری ہے کہ اس دوست شخص کی طرف سے ان کے دلوں میں کینہ پیدا ہو اور وہ اس کو نیچا دکھانے کی کوشش کریں۔ میر صاحب اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ کسی کے دل میں ان کی طرف سے کینہ اور عداوت کا جذبہ پیدا ہو، اس لیے وہ اپنی حالت تنگ دستی وخواری پر قانع ہیں بلکہ اس حالت پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور کہتے ہیں،

گو توجہ سے زمانے کی جہاں میں مجھ کو
جاہ و ثروت کا میسر کوئی ساماں نہ ہوا

شکر صد شکر کہ میں ذلت و خواری کے سبب
کسی عنوان میں ہم چشم عزیزاں نہ ہوا

وہ اپنی بے سروسامانی پر خوش ہیں اور مرتے دم تک ان کا یہی رویہ رہا،

خوش رہا جب تلک رہا جیتا
میر معلوم ہے قلندر تھا

وہ صبر و شکر کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ رنجش کا اظہار نہیں کرتے۔ حرف شکایت ان کی زبان پر کبھی نہیں آتا۔ ایک اور شخص ان کے مزاج کی اس افتاد کی تصویر کھینچتا ہے،

رنجش کی کوئی اس کی روایت نہ سنی
بےحرف کسی وقت حکایت نہ سنی

تھا میر عجب فقیر صابر شاکر
ہم نے اس سے کبھو شکایت نہ سنی

تکلیفوں پر تکلیفیں اٹھاتے ہیں۔ مصیبتوں پر مصیبتیں جھیلتے ہیں مگر دست سوال کسی کے آگے دراز نہیں کرتے۔ اگر دنیا میں کوئی فیاض ہے تو ہوا کرے۔ وہ اپنی فقیری کی اس آن بان کو کبھی ہاتھ سے نہیں دیتے اور کس مزے سے کہتے ہیں،

خوب کیا جو اہل کرم کے جور کا کچھ نہ خیال کیا
ہم جو فقیر ہوئے تو ہم نے پہلے ترک سوال کیا

وہ اپنے تئیں آپ نصیحت کرتے ہیں،

میر بندوں سے کام کب نکلا
مانگنا ہے جو کچھ، خدا سے مانگ

اگر کبھی تحصیل روزی اور کسب معاش کا خیال ان کے دل میں پیدا ہوتا ہے تو اپنے دل کو اس طرح چشم نمائی کرتے ہیں،

تیرا اے دل یہ غم فرو بھی ہوگا
اندیشہ رزق کم کبھو بھی ہوگا

کھانے کو دیا ہے آج حق نے تجھ کو
کل بھی دیوےگا، کل جو تو بھی ہوگا

وہ اپنی کلاہ فقیری کو تاج شاہی پر ترجیح دیتے ہیں۔ اور تاج شاہی سے خطاب کرکے کہتے ہیں،

اے تاج شہ نہ سر کو فرولاؤں تیرے پاس
ہے معتقد فقیر نمد کی کلاہ کا

اگر دوست احباب ان کو صلاح دیتے ہیں کہ وہ بادشاہ کی تعریف میں قصیدہ لکھیں اور انعام اکرام حاصل کرکے سامان زندگی درست کریں، تو ان کے تیور بدل جاتے ہیں اور فوراً جواب دیتے ہیں،

مجھ کو دماغ وصف گل و یاسمین نہیں
میں جوں نسیم باد فروش چمن نہیں

وہ سرے سے دنیا کے تعلقات کو پسند نہیں کرتے۔ محکومی ان کی فطرت کے خلاف ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ حاکم بننا بھی نہیں چاہتے کیونکہ حاکم بن کر محکوموں کے معاملات میں الجھنا ان کی شان خودداری کے خلاف ہے۔ چنانچہ تعجب کے لہجے میں فرماتے ہیں،

الہی کیسے ہوتے ہیں جنہیں ہے بندگی خواہش
ہمیں تو شرم دامن گیر ہوتی ہے خدا ہوتے

مگر اس لحاظ سے کہ خدا کو کسی کے سامنے سرجھکانا نہیں پڑتا، اپنی بندگی کی حالت پر اور اس مزاج پر افسوس ظاہر کرتے ہیں کہ باوجود اس حالت کے کسی کے سامنے جھکنے کو جی نہیں چاہتا،

سر کسو سے فرونہیں آتا
حیف بندے ہوئے خدا نہ ہوئے

سکندر نے خضر سے التجا کی تھی کہ وہ اس کو آب حیات کے چشمے پر پہنچا دیں۔ مگر ایسی نادر چیز کے لیے بھی میر صاحب سوال کی ذلت کو قبول نہیں کرتے اور آب حیات کی طرف آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھتے۔ عالی ہمت کا ثبوت اس سے زیادہ اور کیا درکار ہے۔ کسی نے ان سے آب حیات کا ذکر کیا وہ ہنس کر فرماتے ہیں،

آب حیات وہی نہ جس پر خضر وسکندر مرتے تھے
خاک سے ہم نے بھرا وہ چشمہ، یہ بھی ہماری ہمت تھی

وہ ان جذبات عالیہ کے سبب جو ان کی بلند فطرت کاجز ہیں، اپنی ہستی کی عظمت سے اچھی طرح واقف ہیں اور فخر کے لہجے میں دنیا کو سناتے ہیں،

مت سہل ہمیں سمجھو پہنچے تھے بہم تب ہم
برسوں تئیں گردوں نے جب خاک کو چھانا تھا

نازک مزاجی کا یہ عالم ہے کہ اگر کسی محفل میں جا نکلتے ہیں اور کوئی بات خلاف مزاج محسوس ہوتی ہے تو فوراً اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر لوگ ہزار منت سماجت کریں، اس محفل کی طرف آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھتے،

اٹھا جو باغ سے میں بے دماغ تو نہ پھرا
ہزار مرغ گلستاں مجھے پکارا ہے

دنیا داروں کا قاعدہ ہے کہ جب وہ کسی باکمال شخص کی خاطرومدارات کرتے ہیں تو اپنے دل میں سمجھتے ہیں کہ ہم نے اس شخص کی عزت کرکے اس پر احسان کیا۔ مگر میر صاحب جیسا باکمال آدمی ان باتوں کی تالب کب لا سکتا ہے۔ وہ ایسے مصنوعی اخلاق سے بگڑ جاتے ہیں اور اس حالت میں روٹھنے کے بعد ان کا مننا مشکل ہے،

دل نے بہت کہا کہ چمن سے نجائیے گلگشت کو جو آئیے آنکھوں پر آئیے
میں بے دماغ کرکے تغافل چلا گیا، وہ دل کہاں کہ ناز کس کے اٹھائیے

میر صاحب خود بھی واقف ہیں کہ ان کی بے دماغی اور نازک مزاجی کے چرچے ہوتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں،

ہے نام مجلسوں میں مرا میر بے دماغ
از بسکہ بےدماغی نے پایا ہے اشتہار

مگر بےدرد لوگ اس نازک مزاجی کی تہ کو نہیں پہنچ سکتے۔ وہ اس بات سے بےخبر ہیں کہ ہر باکمال آدمی اپنے مزاج کے لحاظ سے بادشاہ ہوتا ہے۔ اگر لوگوں کو اپنی دولت و حکومت پر ناز ہے، تو وہ اپنے کمال فن پر نازاں ہے۔ اسے کیا ضرورت ہے کہ لوگوں کی ناز برداریاں کرے اور ان کے احسان اٹھائے۔ جو توقع مغرور دنیا داروں کو عام آدمیوں سے ہوتی ہے، وہی توقع انہیں اہل کمال سے بھی ہے۔ مگر جب ان سے سابقہ ہوتا ہے تو ان کا انداز نرالا اور ان کا برتاؤ بالکل انوکھا نظر آتا ہے۔ سچ کہا ہے،

تری چال ٹیڑھی تیری بات روکھی
تجھے میر سمجھا ہے یاں کم کسونے

میر صاحب کی اندرونی زندگی کی جھلک جوان کی شاعری میں پائی جاتی ہے، اس کی مثالیں پیش کرنے کے بعد اب ہم ان کی زندگی کے غالب پہلو پر نظر ڈالتے جس سے ہماری مراد قنوطیت ہے۔ مشہور ہے کہ اگر کسی کے سرپر ہما کا سایہ پر جائے تو اس کو حکومت نصیب ہوتی ہے۔ مگر میر صاحب اپنی بدنصیبی کی شکایت کرتے ہیں،

طالع جو خوب تھے، نہ ہوا جاہ کچھ نصیب
سر پر میرے کروڑ برس تک ہما پھرا

فارسی زبان کے ایک شاعر نے کہا تھا،

درمحفل خود جائے ہمچو منے را
افسردہ دل افسردہ کندا نجمنے را

میر صاحب اس منزل سے آگے قدم بڑھاتے ہیں اور اپنی بدنصیبی کا خاکہ اس طرح کھینچتے ہیں،

بزم عشرت میں ملامت ہم نگوں بختوں کے تئیں
جوں حباب بادہ ساغر سرنگوں ہو جائےگا

انوری کا مشہور قطعہ ہے،

ہر بلائے کز آسماں آید
گرچہ بردیگرے قضا باشد
برزمین تارسیدہ می پرسد
خانہ انوری کجا باشد

میر صاحب نے اس مضمون کو انوری سے بہت زیادہ بلیغ طریقہ سے ادا کیا ہے،

جب کوندتی ہے بجلی تب جانب گلستاں
رکھتی ہے چھیڑ میرے خاشاک آشیاں سے

جانب گلستاں کے لفظ سے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ میرا آشیانہ باغ کے درمیان نہیں ہے کہ میں بہار کا تماشا دل کھول کر دیکھ سکوں اور باغ کی سیر سے جی بھر کر حظ اٹھا سکوں بلکہ میرا آشیانہ باغ کے ایک کنارے پر ہے، تاہم جب بجلی کوندتی ہے، اسی طرف کوندتی ہے۔ اگر بجلی میرے آشیانہ پر گر کر اس کو پھونک ڈالے تو پرواہ نہیں۔ اس حالت میں بھی ایک طرح سے بے فکر ی ہو جائےگی۔ مگر بجلی ایسا نہیں کرتی وہ ہر بار یہ ظاہر کرتی ہے کہ میرے آشیانہ کے حقیر اور ناچیز تنکوں سے چھیڑ کیا کرتی ہے اور اس چھیڑ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے دل پر خوف کا جذبہ پے درپے طاری ہو اور کسی وقت بھی میرے دل کو یکسوئی حاصل نہ ہو۔ میر نے پیش آنے والی مصیبت کی ہولناک تصویر کھینچی ہے، جس سے دل پر خاص اثر ہوتا ہے۔ برخلاف اس کے انوری نے ظرافت کا پیرایہ اختیار کیا ہے جس سے پایا جاتا ہے کہ آنے والی مصیبت کا کوئی اثر اس کے دل پر نہیں۔ میر صاحب اس بات کو کہ ہماری ساری عمر ناکامیوں اور غموں میں گزری اور شروع ہی سے کبھی خوشی نصیب نہیں ہوئی، اپنے کلام میں جابجا بیان کرتے ہیں۔ مثلاً،

میں وہ پژمردہ سبزہ ہوں کہ ہوکر خاک سے سرزد
یکایک آ گیا اس آسماں کی پائمالی میں

یاروئے یار لایا، اپنی تو یوں ہی گزری
کیا ذکر ہم صفیراں یاران شادماں کا

مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

ہماری تو گزری اسی طور عمر
یہی نالہ کرنا یہی زاریاں

حاصل کوئی امید ہوئی ہو تو میں کہوں
خون ہی ہوا کیے ہیں میرے دل میں سارے چاہ

کیسا چمن کہ ہم سے اسیروں کو منع ہے
چاک قفس سے باغ کی دیوار دیکھنا

ان غم انگیز حالات کو دیکھ کر میر صاحب چار نتیجے نکالتے ہیں۔ (اول) یہ کہ دل جو آرزوؤں اور ارمانوں کا ایک شہر تھا، کبھی آباد ہوا اور کبھی ویران ہوا مگر آخر کار قضا و قدر نے فیصلہ کر دیا کہ اس کو ہمیشہ کے لیے ویران کر دو۔ چنانچہ وہ برباد کر دیا گیا اور برباد بھی ایسا ہوا کہ گویا کبھی آباد ہی نہیں ہوا تھا۔

شہر دل ایک مدت اجڑا بسا غموں میں
آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا

خرابی دل کی اس حد ہے کہ یہ سمجھا نہیں جاتا
کہ آبادی بھی یاں تھی یا یہ ویرانہ تھا مدت کا

(دوم) یہ کہ دل کی سرزمین اب بنجر ہو چکی ہے۔ اس میں اگر کچھ بویا جائے تو اگنے کی امید نہیں، اس لیے وہ نصیحت کرتے ہیں کہ،

سبز ہوتی ہی نہیں یہ سرزمین
تخم خواہش دل میں تو بوتا ہے کیا

(سوم) یہ کہ دنیا مصیبتوں کا گھر ہے اور جب سے وہ بنی ہے، ایسی ہی چلی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں،

رہ گزر سیل حوادت کا ہے بے بنیاد ہر
اس خرابی میں نہ کرنا فکر تم تعمیر کا

جب سے جہاں ہے تب سے خرابی یہی ہے میر
تم دیکھ کر زمانے کو حیران کیا ہوئے

(چہارم) یہ کہ دنیا کے واقعات انسان کے اختیار سے باہر ہیں۔ انسان کو محتار سمجھنا غلطی ہے۔ اگر وہ بہتری حاصل کرنے کی کوشش کرے تو کامیاب نہیں ہو سکتا،

ہم جبریوں سے کیا ہوبے دست و پا و عاجز
کہنے کو تو کہتے ہیں، تو کچھ اختیار بھی ہے

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

مگر میر صاحب اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ جبری ہونے کے بعد انسان منھ بنائے اور تیوری چڑھائے رہے۔ ان کا فلسفہ یہ ہے کہ جب انسان کو کچھ اختیار نہیں اور جو کچھ ہوتا ہے، وہ خدا ہی کے طرف سے ظہور میں آتا ہے تو پھر انسان خندہ پیشانی کیوں نہ رہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں،

مت اس چمن میں غنچہ وش بودباش کر
مانند گل شگفتہ جبیں یاں معاش کر

خود میر صاحب کا اسی فلسفہ پر عمل ہے۔ چنانچہ ان کا یہ ایک شعر پہلے گزر چکا ہے،

خوش رہا جب تلک رہا جیتا
میر معلوم ہے قلندر تھا

میر صاحب کی شاعری عاشقانہ شاعری ہے اور ان کی یہ شاعری لاجواب سمجھی جاتی ہے۔ اس شاعری میں ان کے وہی اشعار نشتر خیال کیے جاتے ہیں جن میں قنوطیت کی جھلک پائی جاتی ہے۔ میر صاحب کے کلام میں تصوف کا عنصر بھی ہے۔ مگر مظہر جاناں اور درد کے کلام میں تصوف کے جو خیالات ہیں وہ بزرگوں کی واردات قلبی ہیں، میر نے ان بزرگوں کی تقلید سے یہ خیالات داخل کلام کیے ہیں۔

میر کا فلسفہ معاشرت کیا ہے؟ یعنی ان کے نزدیک لوگوں کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے اور سوسائٹی میں رہ کر کس طرح زندگی بسر کرنی چاہیے؟ یہ بحث بھی دلچسپ ہے اور اس کاتعلق میر صاحب کی شاعری اور ان کی زندگی سے ہے۔ اگر ہم کسی دل کو ڈھاکر کعبہ بنانا چاہیں تو ہمارا یہ فعل میر کی نظر میں ناجائز ہوگا۔ اگر کوئی ہمیں برا کہے تو اس کے جواب میں اس کی بھلائی کی دعا کرنی چاہیے۔ اگر ہم دنیا میں سرفراز ہونا چاہیں تو اس کی تدبیر یہ ہے کہ رفاہ خلائق کی راہ میں خاک کی طرح اپنے تئیں پامال کریں۔ میر صاحب باآواز بلند فرماتے ہیں کہ خدا کی بارگاہ میں روزہ نماز کی حاجت نہیں ہے۔ اگر ہے تو اس بات کی ہے کہ تم نوع انسان کی دل جوئی کرو۔ تم مسجد کے دروازہ پر حلقہ مار کر بیٹھو یا شراب فروش کی دکان میں رہا کرو۔ اس کی وہاں مطلق پروا نہیں۔ جو تمہارے جی میں آئے کر گزرو۔ مگر خبر دار کسی کا دل نہ دکھانا۔ یہی ایک بات ہے جو نہایت اہم ہے۔ آگے تم مختار ہو۔ مانو یا نہ مانو۔

ایک جگہ میر صاحب کہتے ہیں کہ اگر کوئی انسان کسی چیونٹی کو ستاتا ہے تو اس کے دل سے غبار اٹھتا ہے اور وہ عرش تک پہنچتا ہے۔ دنیا میں غم زدہ رہے یا دل شادر ہے، اس سے میر صاحب کو کوئی بحث نہیں۔ وہ تو صرف یہ نصیحت کرتے ہیں کہ تم دنیا میں کوئی ایسا نیکی کا کام کر جاؤ کہ بہت دن تک تمہاری یاد لوگوں کے دلوں میں تازہ رہے۔ وہ دنیا کو ایک شیشہ گر کی دکان سے تشبیہ دیتے ہیں، جس میں زمین پر ہر طرف شیشے پھیلے ہوئے ہوں اور اہل دنیا کو ہدایت کرتے ہیں کہ ذرا احتیاط سے قدم رکھو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے چلنے سے کسی شیشے (یعنی کسی انسان کے دل) کو ٹھیس لگے، اگر ایسا ہوا تو اس بے احتیاطی کا خمیازہ شیشے کے ٹوٹنے کے ساتھ تمہیں بھی اٹھانا پڑےگا یعنی تمہارے تلوے زخمی ہو جائیں گے۔ یہ خیالات خود میر کی زبان سے سنو!

مت رنجہ کر کسی کو کہ اپنے تو اعتقاد
دل ڈھائے کر جو کعبہ بنایا تو کیا ہوا

معیشت ہم فقیروں جیسی اخوان زماں سے کر
کوئی گالی بھی دے تو کہہ بھلا بھائی بھلا ہوگا

بسانِ خاک ہو پامال راہ خلق اے میر
رکھے ہے دل میں اگر قصد سرفرازی کا

واں جہاں خاک کے برابر ہے
قدر ہفت آسمانِ ظلم شعار

یہی درخواست پاس دل کی ہے
نہیں روزہ نمازواں درکار

درمسجد پہ حلقہ زن ہو تم
کہ رہو بیٹھ خانہ خمار

جی میں آوے سو کیجیو پیارے
ایک ہو جو نہ درپے آزار

عرش پر بیٹھتا ہے کہتے ہیں
گر اٹھے ہے غبار خاطر مور

بارے دنیا میں رہو غم زدہ یاشادر ہو
ایسا کچھ کرکے چلو تم کہ بہت یاد رہو

ہر دم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں
یہ کارگاہ سازی دکان شیشہ گر ہے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.