میرے ہی دل کے ستانے کو غم آیا سیدھا
Appearance
میرے ہی دل کے ستانے کو غم آیا سیدھا
راستہ دیکھ لیا ہے مرے گھر کا سیدھا
ایک صورت کبھی طالع کی نہ دیکھی ہم نے
خط تقدیر لکھا ہے عجب الٹا سیدھا
سیدھی سیدھی ہمیں ہر وقت سنا بیٹھتے ہو
نام سن پایا ہے صاحب نے ہمارا سیدھا
ٹیڑھی بانکے ہوئے اس شوخ کے آگے سیدھے
کیا ہی کج فہم ہے وہ جو اسے سمجھا سیدھا
عشق پیچاں کو کیا ہم نے جو آڑا ترچھا
سرو کو یار نے گلشن میں بنایا سیدھا
خط کے آنے پہ بھی ٹیڑھا ہی رہا وہ ہم سے
خضر نے بھی ہمیں رستہ نہ بتایا سیدھا
مہرؔ واللہ میں قاتل ہوں تری باتوں کا
خوب انداز سخن ہے ترا سیدھا سیدھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |