Jump to content

میرے لب پر کوئی دعا ہی نہیں

From Wikisource
میرے لب پر کوئی دعا ہی نہیں
by فانی بدایونی
299788میرے لب پر کوئی دعا ہی نہیںفانی بدایونی

میرے لب پر کوئی دعا ہی نہیں
اس کرم کی کچھ انتہا ہی نہیں

کشتئ اعتبار توڑ کے دیکھ
کہ خدا بھی ہے نا خدا ہی نہیں

میری ہستی گواہ ہے کہ مجھے
تو کسی وقت بھولتا ہی نہیں

اب اسے ناامید کیوں کہیے
دل کو توفیق مدعا ہی نہیں

غم میں لذت کہاں کہ دل نہ رہا
ہائے وہ حسرت آشنا ہی نہیں

وہی تو ہے وہی تری محفل
ایک فانیؔ مبتلا ہی نہیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.