میری داستان
یعنی
چونتیس برس کی قید با مشقت کے کچھ حالات و واقعاتہر قدم پر ہوتی ہے سیل حوادث پائے بوسیہ ہماری زندگی ہے جس پہ یہ کچھ ناز ہےتمہیدجب سے یہ دنیا قائم ہوئی ہے سب ہی کہتے آئے ہیں کہ یہ ایک جیل خانہ ہے۔ اور کہتے بھی سچ ہیں۔ پہلے ہر آنے والا ماں کے پیٹ میں قید رہتا ہے۔ پھر بڑے بوڑھوں کی قید میں رہتا ہے۔ اس کے بعد مدرسے کی قید میں رہتا ہے۔ بعد ازاں نوکری کی قید میں رہتا ہے اور آخر چل چلا کر ہمیشہ کے لئے قبر میں قید ہو جاتا ہے۔ میں بھی سوائے اس آخری قید کے بقیہ ساری قیدیں بھگت چکا ہوں اور اب اللہ کےفضل سے اس آخری قید کا زمانہ بھی قریب آ گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ اس آخری قید کی معیاد شروع ہو جائے، میں چاہتا ہوں کہ اپنی ’’جنم ٹائم‘‘ کے کچھ حالات لکھ دوں تاکہ’’داشتہ آید بکار’‘ ہو سکیں۔ سبھوں کی طرح میرا پہلا جیل خانہ ماں کا پیٹ تھا۔ جہاں تک میرا علم ہے اس جیل خانے کی قید کا حال بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ڈاکٹروں، حکیموں اور ویدوں نے اس کے متعلق کچھ اٹکل پیچو غیر مقلد باتیں ضرور کی ہیں۔ لیکن اس ’’کال کوٹھری’‘ میں قید تنہائی کے کس طرح نو مہینے گزرتے ہیں، اس کا حال کچھ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ایسی صورت میں جھوٹی سچی باتیں بنانے کے بجائے خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔ ممکن ہے آئندہ زمانے میں انسانی ترقی اس جیل خانہ کے حالات کو بھی منظر عام پر لا سکے، اور وہاں کے قیدیوں کے افعال کو بجلی کی روشنی میں دکھایا جا سکے۔ پیدا ہونے کے بعد بڑے بوڑھوں کی قید میں بچوں کی جس طرح گزرتی ہے وہ ناقابل اظہار ہے۔ یہ بزرگ سمجھتے ہیں کہ بچے ہمارے دست نگر اور بجز ہماری مدد کے جی نہیں سکتے۔ اس لئے ہم کو حق حاصل ہے کہ جس طرح چاہیں ان کو چلائیں اور جس طرح چاہیں ان کو ستائیں۔ جس کام سے چاہیں ان کو روکیں، اور جس کام کو چاہیں انہیں کرنے دیں۔ یہ اختیارات استعمال ہو رہے ہیں یا نہیں اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو۔ فرض کیجئے کہ ایک بچہ ہے۔ وہ ماں کے گھڑ کنے پر خفا ہو کر بھاگتا ہے، اور کوئی ایسا کام کرنا چاہتا ہے جس کو اس کے بزرگ پسند نہیں کرتے۔ وہ اس کو اپنی طاقت کے زور پر اس کو یہ کام کرنے سے روک دیتے ہیں۔ اب آپ خود ہی ارشاد فرمائیے کہ کیا اس بچے کی آزادی پر جبر نہیں ہے۔ اور کیا یہ اس کی آزادی خیال اور آزادی افعال کے گرد ایک گھیرا نہیں ہے۔ ہے اور ضرور ہے۔ یہ کیوں ہوتا ہے۔ یہ اس لئے ہوتا ہے کہ یہ بزرگ ایک طرح اپنے آپ کو خالق اور بچے کو مخلوق سمجھتے ہیں۔ مگر سچی بات منہ سے نہیں نکالتے۔ بلکہ اس کے بجائے یہ کہتے ہیں کہ کیا کریں ہم کو بچوں سے محبت ہے۔ ممکن ہے کہ ہو، مگر بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ محبت نہیں، ضرورت ہے اور آپ جانتے ہیں کہ جہاں محبت کے ساتھ غرض کا دم چھلہ لگ جاتا ہے، تو وہ محبت نہیں رہتی ضرورت ہو جاتی ہے۔ آپ اس مسئلے کو ایک مثال سے سمجھ لیجئے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا کوئی شخص بطور تفنن طبع چوری کرتا ہے، ہرگز نہیں۔ چنانچہ اس اصول کو نظیر اکبر آبادی نے یوں بیان کیا ہے،نٹ کھٹ، اچکے، چور، دغا باز، راہ مارعیار، جیب کترے، نظر باز، ہوشیارسب اپنے اپنے پیٹ کے کرتے ہیں کاروبارکوئی خداکے واسطے کرتا نہیں شکاربلی بھی مارتی ہے چو ہا پیٹ کے لئےجس طرح بلی اپنے پیٹ کے لئے چوہا مارتی ہے اسی طرح ہمارے بزرگ اپنا دل خوش کرنے کے لئے بچوں سے محبت کرتے ہیں۔ ’’اور کوئی خدا کےواسطے نہیں کرتا پیار۔’‘ خیر یہ تو فلسفہ کا ایک بڑا گہرا مسئلہ ہے۔ اس کو چھوڑیئے اور اصل مطلب پر آئیے۔ یعنی یہ کہ پیدا ہونے کے بعد ہر بچہ کسی نہ کسی طرح بزرگ کی قید میں رہتا ہے لیکن مزا تو یہ ہے کہ بعدمیں کوئی بھی ان بزرگوں کے خلاف کچھ نہیں لکھتا اور شاید اس لئے نہیں لکھتا کہ ایک دن اس کو خود بڑا بننا اور اس خطرناک مقولہ کی تائید کرنا ہے کہ،خطائے بزرگاں گرفتن خطا است! میں نے اپنے اس بچپن کی قید اور مدرسے کی قید کے بہت سے واقعات اپنے ایک مضمون ’’یاد ایام عشرت فانی‘‘ میں لکھے ہیں۔ اب ان کا یہاں دہرانا بے ضرورت اور بے موقع ہے۔ چوتھی قید یعنی ملازمت کے حالات لکھنے کو بہت جی چاہتا تھا کیونکہ یہ ہی وہ قید با مشقت ہے جو سب سے زیادہ سخت اور سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے اور جس میں ’’دم نہ مارو، شکر گزارو‘‘ کا وظیفہ پڑھتے پڑھتے عمر کا سب سے بڑا اور سب سے اچھا حصہ بیت جاتاہے مگر مشکل یہ تھی اور رہ رہ کر یہ خیال آتا تھا کہ اول تو میری باتوں پر شاید سو میں سے دو چار صاحب ہی اعتبار کریں گے۔ دوسرے یہ کہ سچی بات سننا اور سہنا بقول شخصے کہ ’’کارے دارد۔‘‘ آخر خدا خدا کر کے اس قید کا زمانہ ختم ہوا۔ کچھ کچھ آزادی کی ہوا لگی اور اس وقت خیال آیا کہ میاں جو کچھ لکھنا ہے وہ جلدی لکھ لکھا کر ختم کرو۔ سب سے لمبی قید کا زمانہ سامنے آ لگا ہے۔ بہتر ہے کہ اس قید کی معیاد شروع ہونے سے پہلے کچھ لکھ کر چھوڑ جاؤ تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ہر قوم اور ہر ملت کو اپنی’’روایات و حکایات‘‘ جمع کرنے کا شوق ہے اور رہا ہے کیونکہ یہی چیزیں ان کی تاریخ ہیں۔ لیکن افسوس تو اس کا ہے کوئی اللہ کا بندہ اپنے افسروں اور بالا دستوں کے کارنامے اور ان کے سچے حالات اور واقعات خوش مذاقی کی چاشنی دے کر نہیں لکھتا۔ کیوں کہ بے چارہ ڈرتا ہے کہ اگر لکھ بیٹھا تو نوکری جائے گی اور نوکری گئی تو پھر ’’انا للہ‘‘ ہو جانے میں کیا کوئی کسر رہ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک ہمارے کسی مضمون نگار صاحب نے اس ’’قید سخت و با مشقت‘‘ کےمتعلق کچھ لکھنے پر قلم نہیں اٹھایا ہے اور یہ ’’روایات و حکایات‘‘ سینہ بہ سینہ اور ’’زبان در زبان‘‘ باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے پر منتقل ہوتی چلی جاتی ہے۔ کیونکہ ہر شخص ڈرتا اور دعا کرتا ہے کہ ،’’یا اللہ بچا مجھ کو اس مصیبت سے جو فوج داری عدالتوں میں شریفوں پر نازل ہوتی ہیں۔‘‘ میں ہمت کر کے یہ مضمون لکھ تو رہا ہوں مگر تعزیرات کی دفعہ425 ہر وقت پیش نظر ہے۔ پھر بھی مجھے یقین کامل ہے کہ ایک عرصے تک فوج داری میں کام کرنے کی وجہ سے میری تحریر کا ہر لفظ ’’دفعہ محولا بالا‘‘ کے مستثنیٰ اول میں داخل ہو سکے گا یا داخل کیا جا سکے گا۔ اب رہا یہ امر کہ میری اس تحریر پر اعتبار کیا جائے گا یا نہیں تو اس کے متعلق میں صرف یہ عرض کرنا کافی سمجھتا ہوں کہ میرے تمام دوست اور احباب اس وقت تک مجھے ایک بڑا سچا آدمی سمجھتے چلے آئے ہیں۔ اب آپ ان شریفوں کی بات کا یقین نہ فرمائیں تو اس کا میرے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی میں یہ ضرور کہے دیتا ہوں کہ جو حالات او رواقعات میں نے دوسروں کی زبانی کہے ہیں، ان کے سچے یا جھوٹے ہونے کا میں کسی طرح ذمے دار نہیں ہوں۔ براہ کرم دروغ برگردن راوی کی مثل مجھ سے متعلق نہ کی جائے۔ البتہ جو کچھ اپنی آنکھوں دیکھا میں نے لکھا ہے اس کے متعلق یقین مانئے کہ اس کا ایک ایک حرف صحیح ہے اور اللہ میاں کے سامنے بھی ان واقعات کی حد تک اس مضمون کو سنانے کے لئے میں بالکل تیار ہوں۔ اور ’’میں باور کرانے کی وجہ رکھتا ہوں‘‘کہ اگر میرے کراماً کاتبین کی تحریر بھی میرے جیسی ہے تو یقیناً ان حالات سے متعلق میری اس تحریر اور میرے نامہ اعمال کی تحریر میں رتی برابر فرق نہ ہوگا تو پھر ’’چل رے خامہ بسم اللہ۔‘‘ تلاش روزگارتعلیم کے جرم کی تکمیل کرنے کے بعد فکر ہوتی ہے کسی بڑے جیل خانہ کی تلاش کی جائے تاکہ وہاں سزا کی معیاد پوری کی جا سکے۔ اس کے لئے سب سے پہلے تحریراً اقبال جرم کیا جاتا ہے اور بتایا جاتاہے کہ ہم نے تعلیم پانے کا جرم کتنا، کہاں کس طرح اور کس خوبی سےکیاہے۔ اس تحریر کو عرف عام میں ’’درخواست ملازمت‘‘ کہتے ہیں اور اس کے ساتھ محکمہ تعلیمات کے مجسٹریٹوں کے فیصلے بغرض تصدیق شامل کئے جاتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ اکثر و بیشتر یہ ساری کارروائی اکارت جاتی ہے اور ہر جگہ سے یہی جواب ملتا ہے کہ اس جیل خانے میں گنجائش اتنی نہیں ہے کہ آپ کے لئے کوئی کونہ نکل سکے۔ کسی دوسرے جیل خانے کی تلاش کی جائے۔ آخرملک خدا تنگ نیستپائے گدالنگ نیستکا خیال کر کے دوسری جگہ اپنی قسمت کا رونا رویا جاتا ہے اور وہاں سے بھی دھکے کھا کر واپس ہونا پڑتا ہے۔ وہ جو مثل ہے کہ خدا شکر خورے کو شکر دیتا ہے۔ آخر کسی نہ کسی جگہ تقدیر لڑ ہی جاتی ہے او ر حکم ہو جاتاہے کہ اس شخص کو کم سے کم پچیس برس کےلیے اس جیل خانے میں پابہ زنجیر قید با مشقت میں رکھا جائے۔ اس حکم کے ہوتے ہی سمجھ لیا جاتا ہے کہ چلو مشکل آسان ہوئی۔ اب سوائے اپنے عہدے دار کے دین اور دنیا میں کہیں بھی کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اور ہمارے رزق کا تعلق اللہ میاں سے منقطع ہو کر ’’جیل کے داروغہ صاحب بالقا بہم‘‘ سے ہو گیا ہے۔ رام پور کا سفرہے، یہ کہ ملازمت کی یہ قید بھی ایک عجیب قید ہے۔ نہ یہاں اقبال جرم کام دیتا ہے اور نہ مجسٹریٹ تعلیم کا کوئی فیصلہ، اور اکثر و بیشتر اس وقت تک کوئی جیل خانے میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ مالکان اور قابضان جیل خانہ کے پاس کسی زبردست شخص کی سفارش نہ پہنچے۔ ہم کو بھی یہی مصیبت پیش آئی، اور سفارش کے لئے کسی بڑے آدمی کی تلاش کرنی پڑتی۔ پھرتے پھراتے ہماری نظر ہز ہائینس سر امیر الدین خاں نواب لوہارو پر پڑی۔ خدا مغفرت کرے۔ یہ نواب صاحب درجے میں تو بڑے تھے مگر ’’دماغ داری’‘ میں بڑے نہیں تھے۔ ہمارے رشتے دار تھے، اور گورنمنٹ میں با اثر بھی۔ اس لئے 1314 ف، م (1905ء) میں بی اے اور شروع 1906 میں ایم اے میں پڑھنے کے بعد ہم لفٹننٹ گورنر الہ آباد کے نام سفارشی خط لینے کے لئے ان کے پاس گئے۔ انہوں نے دو خط دیے۔ ایک لفٹننٹ گورنر کے نام اور دوسرا ہز ہائنس نواب صاحب رام پور کے نام۔ لفٹننٹ گورنر اس زمانے میں نینی تال میں تھے اور نواب صاحب اپنے دارالحکومت رام پور میں۔ خیال آیا کہ چلو پہلے نواب صاحب ہی سے مل لیں۔ ان کا ممالک متحدہ کی گورنمنٹ میں بہت اثر ہے۔ ضرور کام نکل جائے گا۔ اسباب وسباب باندھ، رام پور پہنچے۔ پہلے سیدھے نواب عبد الصمد خاں صاحب کے پاس گئے، جو نواب صاحب لوہارو کے عزیز اور نواب صاحب رام پور کے وزیر تھے۔ یہ بہت مہربانی سے پیش آئے۔ مگر مشکل یہ آ پڑی کہ نواب صاحب اس زمانے میں رام گنگا کے اس پار مقیم تھے۔ دریا چڑھاؤ پر تھا۔ اس لئے کشتی میں پار ہونے کا موقع نہ تھا۔ کئی روز تک رام پور میں ٹھہرے مگر دریا کو ہم سے کچھ ایسی مخالفت ہو گئی تھی، نہ اس کو اترنا تھا اور نہ اترا۔ انتظار کرتے کرتے تھک گئے۔ چوں کہ کالج سے نئے نئے نکلے تھے اور دنیا کے اس رنگ سے ناواقف تھے اس لئے سب سے بگڑ بیٹھے۔ نواب عبد الصمد خاں صاحب نے کہا بھی کہ خط مجھ کو دے دو، میں سفارشی چٹھی منگوا دیتا ہوں لیکن ہم نے صاف انکار کر دیا۔ اور اس لئے انکار کر دیا کہ وہاں کے بعض لوگوں نے کہا کہ دریا کے چڑھاؤ کا بہانہ ہے۔ در اصل تم کو پیشی میں بھیجنے سے پہلو تہی کی جا رہی ہے۔ بھلا کوئی تعلیم یافتہ آدمی ایسی بات سنے اور اس کو تاؤ نہ آ جائے۔ ہم کو بھی تاؤ آ گیا۔ اور ہم ایک دن بغیر کچھ کہے سنے’’مہمان خانے‘‘ سے بھاگ کر سیدھے اسٹیشن پہنچے دہلی تشریف لے آئے۔ نواب صاحب لوہارو سے ملے۔ انہوں نے واقعات دریافت کئے۔ ان کے پاس نواب عبد الصمد خاں صاحب کا خط آ گیا تھا اور اس میں ہماری فراری کے واقعات کی اطلاع دی گئی تھی۔ نواب صاحب لوہارو نے ہمارا بڑا مذاق اڑایا اور کہا کہ، ’’تم دو چار روز اور ٹھہر جاتے یا نواب صاحب رام پور کو میرا خط بھجوا دیتے تو سفارشی چٹھی مل جاتی۔ تم نے یہ کیا غضب کیا کہ اطلاع ہونے کے بعد بغیر ملے چلے آئے۔ اب پھر جاؤ اور جب تک ملنا نہ ہو، رام پور ہی میں ٹھہرے رہو۔ تم نے کیا نواب صاحب رام پور کو بھی نواب صاحب لوہارو سمجھ لیا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’معاف فرمائیے! میں مر بھی جاؤں گا تو رام پور نہ جاؤں گا۔ خدا کی قسم وہاں بعض وقت تو خود کشی کرنے کو جی چاہتا تھا۔‘‘ کہنے لگے، ’’یہ کیوں؟‘‘ میں نے کہا، ’’یہ اس لئے کہ کئی کمرے ٹھہرنے کو مجھے ملے تھے لیکن نوکروں کی یہ حالت تھی کہ ہم نے گھنٹی بجائی، کوئی نوکر آیا، اس سے کام کو کہا، اس نے وہ کام پورا کیا اور چلا گیا۔ جانتا تھا کہ نواب صاحب لوہارو کے عزیز ہیں۔ ان سے بات کرنا خالی از خطرہ نہیں ہے۔ اس کے بعد لیجئے پھر ہم ہیں اور وہی خالی کمرے۔ اتنے دنوں تک کوئی ایک آدمی بھی تو بات کرنے کو نہیں ملا۔ نواب عبد الصمد خاں صاحب کی یہ حالت تھی کہ ان کو کام سے فرصت نہیں تھی۔ ان کی نئی کوٹھی بن رہی تھی، اس کے دیکھنے کو دن میں ایک دفعہ آتے تھے۔ اس وقت کچھ بات ہو جاتی تھی۔ ورنہ ہم تھے اور قید تنہائی۔ بعض وقت تو یہ جی چاہتا تھا کہ دو ایک آدمیوں کا گلا گھونٹ کر خود چھت پر سے کود پڑوں۔ اب آپ فرمائیں یا اور کوئی کہے۔ میں تو رام پور جانے کا نہیں۔ آپ کا خط لے کر لاٹ صاحب کے پاس جاتا ہوں۔ نوکری ملی تو ملی نہیں تو جائے جہنم میں۔‘‘ نواب صاحب بہت ہنسے اور کہنے لگے، ’’میاں فرحت! ابھی تم نے دنیا کی ٹھوکریں نہیں کھائی ہیں۔ دماغ میں نوابی کے خیالات بھرے ہیں۔ میاں یہ دنیا ہے۔ یہاں وہی ابھرتا ہے جو پس کر خاک ہو جاتا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’آگے جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ ابھی تو میں اپنی خود داری کھونے کو آمادہ نہیں ہوں۔‘‘ غرض اس گفتگو کے بعد یہ تصفیہ ہوا کہ سر جیمس لائرشن لفٹننٹ گورنر ممالک متحدہ سے مل لیا جائے، آگے یا قسمت یا نصیب۔ لیفٹیننٹ گورنر سے ملاقاتاس تصفیے کے بعد پھر اسباب باندھا اور سفر وسیلہ ظفر پر عمل ہونے لگا۔ ہماری اس بھاگ دوڑ میں لفٹیننٹ گورنر بہادر کے دورے کا زمانہ شروع ہو گیا۔ اب آگے آگے وہ ہیں اور پیچھے پیچھے ہم۔ جہاں جاتے ہیں وہاں یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں سے کیمپ اٹھ گیا۔ لکھنؤ میں تو ان سے ٹکر ہوتے ہوتے رہ گئی۔ آخر خدا خدا کر کے الہ آباد میں ہماری اور ان کی سواری ایک ساتھ اتری۔ وہ گورنمنٹ ہاوس میں گئے اور ہم اپنے بھائی میاں رحمت اللہ بیگ کے ساتھ، ان کے خالو عبد المجید خاں کے ہاں گئے جو فوج میں ہیڈ کلرک تھے۔ ان کا مکان کنٹونمنٹ میں گنگا کے کنارے پر قلعہ الہ آباد کے قریب تھا۔ جاتے ہی لفٹیننٹ گورنر صاحب کے سکریٹری کو اپنی تشریف آوری کی اطلاع دی، اور یہ بھی لکھا کہ ہم نواب صاحب لوہارو کا خط لائے ہیں۔ ملاقات کا وقت مقرر کر دیا جائے تو ہم خود آ کر یہ خط پیش کریں گے۔ جواب آنے میں کئی دن لگے لیکن الہ آباد میں دل نہیں گھبرایا اور کیوں گھبراتا۔ میاں رحمت موجود تھے۔ ان کے خالو کے بچے موجود تھے۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ گنگا مائی موجود تھیں۔ صبح اٹھے ناشتہ کیا۔ گنگا کے کنارے گئے۔ کشتی میں بیٹھے۔ اس پار پہنچے وہاں مٹر گشت کیا۔ گیارہ بجے واپس آئے۔ کھانا کھایا۔ کچھ دیر سو رہے۔ تیسرے پہر کو اٹھے شہر چلے گئے۔ رات کو آئے کھانا کھایا سو رہے۔ شہر میں میرے ایک بڑے پکے دوست اعجاز حسین بھی رہتے تھے۔ ان کی صحبت میں وقت معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ کب گزر گیا اور کیسے گزرا۔ غرض اس طرح وہاں رہتے رہتے کوئی ایک ہفتہ ہو گیا۔ ایک روز جو شہر کے چکر سے واپس آئے تو یہ بڑی لال مہر کا ایک خط ملا۔ لکھا تھا کہ آپ کل صبح آٹھ بج کر پینتالیس منٹ پر آ سکتے ہیں۔ یہ کارڈ ساتھ لایا جائے۔ چلو یہ مشکل بھی آسان ہو گئی۔ دوسرے دن صبح ہی اٹھ، ہاتھ منہ دھو، کپڑے بدل، سبز پھول دار اطلس کی شیروانی اور سرخ رنگ کی ترکی ٹوپی پہن ہم گورنمنٹ ہاوس پہنچے۔ میاں رحمت ساتھ تھے۔ وہاں جا کر کیا دیکھتے ہیں کہ برآمدے میں اس سرے سے اس سرے تک آدمی ہی آدمی بیٹھے ہیں۔ ایک صاحب نے ہمارا کارڈ دیکھا۔ ایک اور کرسی پر ہم کو متمکن کرایا۔ ظاہر ہے کہ جب آدمی کسی نئی جگہ جا کر بیٹھتا ہے تو ادھر ادھر نظریں ضرور دوڑاتا ہے۔ ہم نے بھی یہی کیا۔ جو صاحب ہمارے برابر بیٹھے تھے وہ گھڑی گھڑی اپنا کارڈ نکالتے تھے۔ پڑھتے تھے، کچھ مسکراتے تھے اور پھر جیب میں رکھ لیتے تھے۔ مجھے بڑی فکر ہوئی کہ یا اللہ! یا اللہ کارڈ تو ان کا بھی ایسا ہی ہے جیسا میرا ہے۔ پھر آخر یہ پڑھتے کیا ہیں اور مسکراتے کیوں ہیں۔ آخر نہ رہا گیا ور جب انہوں نے کوئی بیسویں دفعہ اپنا کارڈ نکالا تو میں نے ان سے کہا کہ، ’’کیا میں آپ کا کارڈ دیکھ سکتا ہوں؟’‘ انہوں نے لکھنوانہ انداز سے کہا، ’’جی ہاں! شوق سے۔‘‘ میں نے کارڈ لے کر دیکھا۔ اس کی عبارت وہی تھی جو میرے کارڈ کی تھی۔ ہاں وقت ملاقات بجائے 8.45 کے 8.50 لکھا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے بڑی الجھن ہوئی۔ گویا اس کے یہ معنی ہوئے کہ ہماری ملاقات کا وقت صرف پانچ منٹ ہے۔ بھلا اس پانچ منٹ میں کیا بات ہو سکے گی۔ میں نے ان صاحب سے کہا کہ ’’ذرا اپنے برابر والے صاحب کے کارڈ تو دیکھئے۔ ان کے ہاں وقت ملاقات کیا لکھا ہے۔‘‘ کارڈ دیکھا گیا تو وقت ملاقات 8.55 نکلا۔ اب کیا تھا سب بیٹھنے والوں نے اپنے اپنے کارڈ نکال کر وقت ملانا شروع کیا۔ معلوم ہوا کہ کسی کو بھی پانچ منٹ سے زیادہ ملنے کا وقت نہیں دیا گیا ہے۔ میرے برابر جو صاحب بیٹھے تھے کہنے لگے، ’’اے غضب! غضب خدا کا، ملنے کا وقت اور منٹ، آپ کی جان کی قسم، پانچ منٹ میں تو مزاج پرسی ہی نہ ہو سکے گی۔‘‘ میں نے کہا، ’’آپ مزاج پرسی کیوں کرتے ہیں؟ جاتے ہی مطلب کی باتیں شروع کر دیجئے۔‘‘ کہنے لگے، ’’اے جناب! آپ کیسا فرماتے ہیں۔ لیفٹننٹ گورنر صاحب بہادر سے ملنے جاؤں اور ان کی اور ان کے بال بچوں کی خیریت بھی نہ پوچھوں۔ ہم پرانے زمانے کے لوگ ہیں۔ اپنے پرانے ادب آداب کے طریقے کو کہیں چھوڑ سکتے ہیں۔ کام ہو نہ ہو۔ صاحب کی خیریت تو معلوم ہو جائے گی۔‘‘ ابھی ہم دونوں میں یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ ایک چوبدار نے آ کر آواز لگائی، ’’مرزا فرحت اللہ بیگ!‘‘ ہم اٹھے، ذرا شیروانی درست کی اور نہایت ٹھاٹھ سے کمرے میں داخل ہوئے۔ ہمارا کمرے میں داخل ہونا تھا کہ سامنے سے ایک بڑے لمبے تڑنگے صاحب بہادر فسٹ کلاس سوٹ پہنے ہوئے آئے۔ بہت مسکرا کر مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا اور کہا، ’’آپ ہی مرزا فرحت اللہ بیگ ہیں۔‘‘ میں سمجھا لاٹ صاحب یہی ہیں۔ نہایت فیشن سے انگریزی طریقے پر گردن کو جھکا کر کہا، ’’یور آنر! میں ہی فرحت اللہ بیگ ہوں۔‘‘ میرے اس کہنے پر ان صاحب نے کہا، ’’معاف فرمائیے گا، آپ کو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں لفٹیننٹ گورنر نہیں ہوں، ان کا سکریٹری ہوں۔‘‘ اس کے بعد آپ سمجھ لیجئے کہ مجھے کتنا پسینہ آیا ہوگا۔ وقت کم تھا اس لئے سکریٹری صاحب نے بھی اس غلط فہمی کو طول دینا مناسب نہ سمجھا۔ مڑے، آگے بڑھے، سامنے والا دروازہ کھولا اور کہا، ’’مرزا فرحت اللہ بیگ۔‘‘ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بڑی سی میز کے سامنے ایک فرنچ فیشن کی داڑھی والے ایک بڑے میاں بیٹھے ہوئے ہیں، پہلو میں ایک چھوٹی سی میز ہے۔ اس پر ایک چوکھٹا رکھا ہے اور چوکھٹے کے اندر جو کاغذ ہے اس پر نہایت خوبصورت حرفوں میں سر جے، جے ڈی لائرش لفٹیننٹ گورنر لکھا ہوا ہے۔ یہ معاملہ ٹھیک تھا اور یہاں کسی غلط فہمی کا اندیشہ نہیں تھا۔ اس لئے بے لگام ہم آگے بڑھے، لاٹ صاحب بھی کرسی سے اٹھے، میز کے پہلو میں جو کرسی بچھی ہوئی تھی اس پر بیٹھنے کا انہوں نے اشارہ کیا۔ ہم بیٹھ گئے۔ انہوں نے نواب صاحب کی خیریت پوچھی اور کہا، ’’کیا آپ ان کا کوئی خط لائے ہیں؟‘‘ میں نے کہا، ’’جی ہاں!‘‘ کہنے لگے، ’’بہتر ہوتا کہ آ پ یہ خط پہلے سے میرے سکریٹری کے پاس بھیج دیتے۔ کیونکہ سرکاری طریقہ یہی ہے۔‘‘ میں نے بہت متانت سے جواب دیا، ’’اور جو یہ خط آپ کے سکریٹری صاحب کہیں کھو دیتے تو۔‘‘ یہ سن کر وہ مسکرائے اور خط لینے کو ہاتھ بڑھایا۔ میں نے خط دیا۔ انہوں نے خط لیا اور پڑھنا شروع کیا۔ معلوم نہیں نواب صاحب لوہارو نے اس خط میں کون سی امیر حمزہ کی داستان لکھی تھی کہ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو کوئی نو صفحے ہو گئے تھے۔ لاٹ صاحب خط پڑھتے رہے اور ہم سامنے والی گھڑی کی طرف دیکھتے رہے 5 (پانچ) منٹ ہوتے ہی کیا ہیں؟ انہوں نے خط ابھی ختم ہی نہیں کیا تھا کہ میں اٹھ کھڑ ا ہوا اور کہا کہ، ’’اب میں اجازت چاہتا ہوں۔‘‘ کہنے لگے، ’’کیوں؟‘‘ میں نے کہا، ’’اس لئے کہ 8.50 سے ایک دوسرے صاحب کو ملاقات کا وقت دیا گیا ہے۔‘‘ یہ سن کر وہ بے اختیار ہنس پڑے اور کہنے لگے، ’’وہ کون صاحب ہیں؟‘‘ میں نے کہا میں ان کا نام تو نہیں جانتا لیکن وہ فرما رہے تھے کہ مجھے کہنا تو بہت کچھ ہے مگر ملاقات کے پانچ منٹ شاید لاٹ صاحب کے خاندان کی خیریت معلوم کرنے میں گزر جائیں اور پھر کسی اور دن ملاقات کے لئے آنا پڑے۔‘‘ کہنے لگے، ’’تمہاری طبیعت میں مذاق بہت ہے۔‘‘ ’’اس میں مذاق کی کون سی بات ہے۔ آپ 8.50 والے صاحب کو بلوا کر پوچھ لیجئے کہ وہ آپ کے سارے خاندان کی خیریت دریافت کرنا ضروری سمجھتے ہیں یا مطلب کی بات کرنا۔‘‘، کہنے لگے، ’’ تم بیٹھے رہو۔ یہ جتنے لوگ آئے ہیں، سب اسی قسم کے ہیں۔ ہر ہفتے ملنے چلے آتے ہیں۔ اور میرا اور اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔’‘ غرض ہم اطمینان سے بیٹھ گئے۔ اب ہر پانچ منٹ کے بعد سکریٹری صاحب گھنٹی بجاتے، یہاں سے جواب نہیں ملتا اور ہر پانچ منٹ پر ایک صاحب بلا ملے رخصت کر دیے جاتے۔ لاٹ صاحب سے ہماری جو باتیں ہوئیں، وہ بس سننے کے قابل تھیں۔ انگریز پروفیسروں اور خاص کر ریورنڈسی۔ ایف اینڈ روز کی صحبت میں رہتے رہتے دل کھل گیا تھا اور سمجھنے لگے تھے کہ ہم بھی کوئی چیز ہیں۔ طبیعت میں مذاق تھا۔ اس لئے اگر کوئی دلچسپ بات دل میں آتی تھی تو اس کے صاف صاف کہنے میں باک نہیں تھا اور یہ خیال تک نہیں رہتا تھا کہ ہم کیا کہہ رہے تھے اور کہاں کہہ رہے ہیں۔ ادھر یہ حال تھا اور ادھر ایک جہاں دیدہ، خوش خلق، ہنس مکھ، بڑے میاں تھے۔ سمجھتے ہوں گے کہ اس بے وقوف کی باتیں ہی سن لو۔ اب میری اور ان کی جو گفتگو ہوئی وہ ذرا غور سے سنیئے۔ لاٹ صاحب، تو آپ اس علاقے میں بہ حیثیت ڈپٹی کلکٹر منتخب ہونا چاہتے ہیں۔ میں، جی ہاں! اگر یہ نہ ہوتا تو میں اتنی دور آتا ہی کیوں۔ لاٹ صاحب، مرزا صاحب آپ کو یہاں کا قانون معلوم ہے؟ میں، جی نہیں۔ لاٹ صاحب، قانون یہ ہے کہ جب تک اس علاقے میں کوئی چھے سال تک نہ رہا ہو۔ اس وقت تک اس کا انتخاب نہیں ہو سکتا۔ کیا آپ یہاں چھے سال تک رہے ہیں؟ میں، جی نہیں۔ لاٹ صاحب، تو پھر میں مجبور ہوں۔ قانون تو قانون ہی ہے۔میں، کیا میں آپ سے ایک سوال کر سکتا ہوں؟ لاٹ صاحب، ضرور۔ میں، جناب والا! آپ کے علاقے میں میرے خاندانی حقوق بھی ہیں۔ جائیداد بھی مگر میں خود یہاں چھ سال نہیں رہا ہوں۔ اس لئے مجھے آپ کے علاقے میں نوکری نہیں مل سکتی۔ علاقہ پنجاب میں میری سکونت رہی ہے۔ مگر وہاں نہ میرے خاندانی حقوق ہیں اور نہ جائیداد۔ اس لئے وہاں میرا انتخاب کسی خدمت پر نہیں ہو سکتا۔ اب رہے ہندوستان کے دوسرے احاطے اور علاقے تو نہ وہاں میں کبھی رہا ہوں، نہ وہاں میری کوئی جائیداد ہے اور نہ وہاں میرے خاندانی حقوق۔ اس لئے وہاں بھی مجھے کوئی جگہ نہیں مل سکتی۔ تو گویا میں سمجھ لوں کہ مجھ پر سارے ہندوستان میں ملازمت کا دروازہ بند ہے۔ (یہ سن کر لاٹ صاحب نے بڑے ذور کا قہقہہ مارا اور کہا،) لاٹ صاحب، ویل مائی بوائے! یو آر اے پرفکٹWell my boy you are a perfect(میاں صاحب زادے، تم تو بڑے دلچسپ ہو) دیکھو میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں۔ تم کہتے ہو کہ اس علاقے میں تمہاری جائیداد بھی ہے اور تمہارے کچھ عزیز بھی ہیں۔ تم کبھی کبھی اپنی جائیداد دیکھنے یا عزیزوں سے ملنے تو ضرور یہاں آتے ہوگے۔ کیا یہ سب مدت مل ملا کر چھے سال نہیں ہو گئی ہوگی۔ میں، میں نے اس کا کوئی حساب تو رکھا نہیں۔ ممکن ہے کہ ہو گئی ہو۔ ممکن ہے کہ نہ ہوئی ہو۔ لاٹ صاحب، نہیں بھی ہوئی تو تکمیل ضابطہ کے لئے تم کہہ دو کہ ہو گئی ہے۔ میں، یہ میری زندگی میں پہلا موقع ہے کہ ایک اتنا بڑا آدمی مجھے جھوٹ بولنے کی تلقین کر رہا ہے۔ خیر آپ کی خاطر کہے دیتا ہوں کہ چھ برس ہو چکے ہیں۔ (یہ سن کر انہوں نے میری درخواست پر کچھ لکھا اور کہا) لاٹ صاحب، مشکل یہ آن پڑی ہے کہ میں اب عنقریب پنشن پر جا رہا ہوں۔ اس سال کے انتخاب ہو چکے ہیں۔ اس لئے فی الوقت تو میں کچھ کر نہیں سکتا۔ ہاں تمہاری درخواست کے جو مشکل مرحلے ہیں، طے کئے دیتا ہوں اورمجھے امید ہے کہ آئندہ سال اس درخواست کی منظوری میں کوئی دقت پیش نہ آئے گی۔ مگر میں پوچھتا ہوں کہ تم نینی تال میں آ کر مجھ سے کیوں نہیں ملے۔ نواب صاحب کا جو خط تم لائے ہو، وہ کہی مہینے پہلے کا ہے۔ اگر اسی زمانے میں میرے پاس آ گئے ہوتے تو جب ہی انتخاب ہو جاتا۔ میں نے اس پر رامپور کے سارے واقعات بیان کر دیے اور یہ بھی کہا کہ آپ کے دورے کی وجہ سے مجھے خدا معلوم کہاں کہاں بھاگنا پڑا ہے۔ یہ سن کر وہ بہت ہنسے اور کہنے لگے،لاٹ صاحب، میں پنشن پر تو ہٹ رہا ہوں مگر میرا خیال ہے کہ اپنے جانشین کے ساتھ مجھے کچھ دنوں اور اس لئے کام کرنا ہوگا کہ امیر کابل آ رہے ہیں اور شاید ہم دونوں کو بھی ان کی خدمت میں رہنا پڑے۔ میں جنوری 1907 م (اسفندار1316ف) میں آگرہ میں ہوں گا۔ میرے جانشین سر جان ہیوٹ بھی وہیں ہوں گے اور نواب صاحب لوہارو بھی وہیں ہوں گے۔ ممکن ہے کہ وہیں تمہارے انتخاب کا تصفیہ ہو جائے۔ غرض اس قسم کی گفتگو میں کوئی پون گھنٹہ لگ گیا۔ یہ سوچ کر کہ اس وقت تک لاٹ صاحب سے ملنے والے نو دس آدمی رخصت ہو چکے ہوں گے اور خدا معلوم مجھے دل میں کیا کچھ برا بھلا کہہ گئے ہوں گے اور جو بیٹھے ہیں وہ کیا کچھ برا بھلا کہہ رہے ہوں گے۔ میں نے اجازت طلب کی۔ لاٹ صاحب نے اٹھ کر ہاتھ ملایا۔ گھنٹی بجائی، سکریٹری صاحب نے دروازہ کھولا۔ ہم سلام کر کے مسکراتے ہوئے باہر نکلے۔ سکریٹری صاحب نے پہلے سے کہیں زیادہ ہماری آؤ بھگت کی۔ ہم بر آمدے میں آئے۔۔۔ ایک دوسرے پانچ منٹ والے صاحب اندر گئے۔ ہم اور میاں رحمت تانگے میں بیٹھے اور گھر واپس آئے۔ گھر پر آ کر سارا قصہ اپنے میزبان عبد المجید خاں کے سامنے دہرایا۔ وہ بہت ہنسے اور کہنے لگے کہ ایسی گفتگو لاٹ صاحب سے شاید ہی کسی نے کی ہو، تو کی ہو، وہ تو کہو کہ بڑا شریف انگریز ہے ہنس ہنس کر تمہاری یہ مسخرے پن کی باتیں سنا کیا۔ کوئی سر پھرا انگریز ہوتا تو ٹھوکر سے خبر لیتا۔ میں نے کہا، ’’جی ہاں! ٹھوکر سے خبر لیتا۔ مجھے تو کوئی ایسا بڑے باپ کا بیٹا نظر نہیں آتا جو ایک مارے اور دو نہ کھائے۔‘‘ کہنے لگے، ’’مرزا صاحب! کیوں خفا ہوتے ہو۔ ابھی تم نے دنیا نہیں دیکھی ہے جو ایسی باتیں کر رہے ہو۔ کچھ دن نوکری میں گزارو، اس کے بعد پوچھیں گے کہ اب کیا ارشاد ہوتا ہے۔‘‘ لاٹ صاحب کی ملاقات کے بعد ہم دو تین روز الہ آباد میں رہے اور پھر دہلی آ گئے۔ نواب صاحب لوہارو دہلی ہی میں تھے۔ ان سے ملے۔ تمام واقعات بے کم و کاست بیان کر دیے۔ وہ بڑے جہاندیدہ شخص تھے اور زمانے کی چالوں کو خوب سمجھتے تھے۔ کہنے لگے، ’’میری رائے میں تمہارا مسخرہ پن میرے خط سے کہیں زیادہ کام کر گیا ہے۔‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا، ’’جناب والا میں نے کون سا مسخرہ پن کیا، جو سچی بات تھی وہ صاف صاف کر دی۔‘‘ کہنے لگے، ’’تم نہیں جانتے۔ ایسے بڑے لوگوں کےسامنے اس طرح کوئی صاف صاف باتیں نہیں کرتا۔ اور خاص کر ایسی کوئی بات زبان سے نہیں نکالتا جس سے ان کا مذاق اڑتا ہو اور اگر کوئی ایسی باتیں کرتا ہے تو وہ دیوانہ سمجھا جاتا ہے یا مسخرا۔‘‘ جیل خانے کی تعلیم کا یہ پہلا سبق تھا جو ہم کو اس روز ملا۔ کچھ دنوں کے بعد لاٹ صاحب کا خط نواب صاحب کے پاس آیا۔ وہ انہوں نے میرے پاس بھجوا دیا۔ خط دیکھ کر دل خوش ہو گیا اور معلوم ہوا کہ واقعی شریف آدمی اس کو کہتے ہیں۔ خط میں وہ تمام واقعات مختصراً لکھے تھے جو اس عجیب رنگ کی ملاقات میں گزرے تھے۔ میری زندہ دلی اور صاف گوئی کی بہت تعریف کی تھی۔ میرے انتخاب کے متعلق اپنی تحریک کا ذکر کیا تھا۔ اور آخر میں اشارتاً یہ بھی لکھ دیا تھا کہ اپنے بھانجے صاحب کو یہ ضرور سمجھا دیجئے کہ صاف گوئی اچھی ہے بشرطیکہ موقع و محل سے ہو۔ اور خوش مذاقی خدا کی ایک دین ہے بشرطیکہ اس کا استعمال مناسب موقع پر کیا جائے۔‘‘ نواب صاحب نے یہ خط مجھے بطور سرٹیفکیٹ رکھنے کو بھیجا تھا۔ میں سمجھا کہ شاید دیکھنے کو بھیجا ہے۔ پڑھ کر واپس کر دیا۔ دو چار روز کے بعد جا کر پوچھا تو پتا نہیں چلا کہ کہاں کھو گیا۔ شروع 1907ء م (1316ف) میں ہم آگرہ پہنچے۔ وہاں امیر حبیب اللہ خاں شاہ کابل بھی آئے۔ سر جان ہیوٹ بھی آئے۔ نواب صاحب لوہارو بھی آئے۔ نہیں آئے تو سر جیمس لاؤش۔ معلوم ہوا کہ طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ اس لئے ولایت چلے گئے۔ یہاں نواب صاحب نے لاٹ صاحب کے سکریٹری سے ہماری درخواست کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے کہا‘ ’’لاؤش صاحب ا س درخواست پر ایسا نوٹ لکھ گئے ہیں کہ اس کو منظور ہی سمجھئے۔ اس سال ڈپٹی کلکٹر کا جو انتخاب ہوگا اس میں مرزا فرحت اللہ بیگ کا نام ضرور آ جائے گا۔‘‘ ظاہر ہے کہ اس کے بعد کسی فکر کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اس لئے امیر کابل کے کیمپ کو اپنا گھر بنایا۔ اور وہاں دعوتوں اور تماشائیوں کا لطف اٹھایا اور خوب اٹھایا۔ حیدر آباد جانے کا شوق اور لوہارو کا سفر! دیکھا جائے تو انسان کی قسمت بھی ایک تماشا ہے، کہیں جڑتی ہے تو کہیں ٹوٹتی ہے اور کبھی ٹوٹتی ہے تو کبھی جڑتی ہے۔ ہماری شادی عبد المجید خواجہ کی بہن سے ٹھہری تھی۔ وہ بیچاری ایک دفعہ ہی چل بسی۔ اب دوسری جگہ کی تلاش ہوئی اور آخر میں ہماری نسبت اپنے ایک چچا، مرزا ساجد بیگ صاحب کی بڑی لڑکی سے ٹھہر گئی۔ میں یہاں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارا سارا خاندان حیدر آباد میں تھا اور یہ سب کے سب اچھی خدمتوں پر تھے۔ میرے والد صاحب بھی حیدر آباد میں رہتے تھے۔ البتہ میں دلی میں اس وجہ سے رہتا تھا کہ میری پھوپھی صاحبہ نے مجھ کو بیٹا بنا لیا تھا، کیونکہ میری والدہ کا انتقال اس زمانے میں ہو گیا تھا جب میں نو دس دن کا تھا۔ مرزا ساجد بیگ صاحب حیدر آباد میں ناظم ضلع (ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ) تھے۔ اپنی منگیتر کو میں نے دیکھا ضرور تھا مگر یہ دیکھنا نہ دیکھنے کے برابر تھا۔ کیونکہ اس وقت تک اس لڑکی کی عمر 4 سال کی اور میری نو سال کی۔ نسبت ٹھہرنے کے بعد یہ وحشت ہوئی کہ کسی طرح حیدر آباد چلو اور اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھو۔ ایک روز میں اور میرے عزیز دوست میاں دانی سہ پہر کے وقت پریڈ میدان میں سے ہو کر کالج گراؤنڈ جا رہے تھے کہ یہی ذکر نکلا۔ انہوں نے کہا کہ، ’’میرا دل بھی حیدر آباد دیکھنے کو بہت چاہتا ہے۔ تم یہ کہہ کر وہاں جاؤ کہ نوکری کی تلاش میں جاتا ہوں۔ میں بھی کسی نہ کسی ترکیب سے وہاں آ جاؤں گا۔‘‘ صلاح بہت اچھی تھی۔ دل کو لگ گئی۔ بجائے کالج جانے کے ہم گھر واپس آئے۔ پھوپھی صاحبہ کو الٹا سیدھا بہت کچھ سمجھایا۔ وہ بے چاری ان چکروں کو کیا سمجھ سکتی تھی، راضی ہو گئی۔ دوسرے ہی دن میں اور میرے ماموں زاد بھائی مرزا سلیم بیگ ریل سے روانہ ہو کر بہوانی پہنچے۔ بہوانی سے لوہارو کوئی (15) کوس ہے۔ پہلے سے اپنے آنے کی اطلاع نہیں دی تھی۔ اس لئے ریاست سے سواری کا کوئی انتظام نہیں ہوا تھا۔ جتنا راستہ تھا سب کا سب ریتیلا تھا۔ بھوانی سے دو اونٹ کرایہ پر لیا اور چل دیے۔ رستے میں بڑے زور کا مینہ برسا مگر مزا تو یہ تھا کہ ہم دونوں کا صرف ایک ہی پہلو بھیگا اور دوسرا بالکل خشک رہا۔ ممکن ہے اونٹ کی بلندی کی وجہ سے ایسا ہوا ہو۔ مگر یہ امر واقع ہے کہ جب ہم دونوں جوٹی پہنچے تو ایک طرف سے بھیگ کر چوڑا ہو گئے تھے اور دوسری طرف پانی کی ایک چھینٹ بھی نہیں پڑی تھی۔ رات جوٹی میں گزاری۔ وہاں کے مچھروں اور کھٹملوں نے ہماری جس طرح خبر لی اس کی شکایت اب لا حاصل ہے۔ غرض صبح آٹھ بجے پھر اونٹ پر سوار ہوئے اور لوہارو پہنچ گئے۔ نواب صاحب سے ملے اور کہا کہ سفارشی خط لکھ دیجئے۔ یہ سن کر وہ ذرا خفا ہوئے اور کہا کہ ’’ملازمت کا جب ایک جگہ انتظام ہو گیا ہے تو اب بے ضرورت حیدر آباد کیوں جاتے ہو۔‘‘ لیکن جب ہم نے حیدر آباد جانے کی اصلی غرض کا اظہار کیا تو وہ مسکرائے اور دو خط لکھ دیے۔ ایک بیلی صاحب ریزیڈنٹ حیدر آباد کے نام تھا اور دوسرا سرگپسن واکر معین الہام فینانس کے نام۔ یہ دونوں خط لینے کے بعد ہم کئی دن تک لوہارو میں رہے اور بڑے مزے سے رہے۔ ماموں علیم بیگ (مرحوم) نے پستے بادام کھلا کھلا کرمعدہ خراب کر دیا اور ماموں لئیق بیگ (مرحوم) نے شاہنامہ سنا سنا کر دماغ پریشان کر دیا۔ آخر لوہارو سے نکلے اور بڑے ٹھاٹھ سے نکلے۔ کئی سانڈنیاں ساتھ تھیں۔ ایک پر میں اور سلیم بیگ تھے۔ دوسرے پر شاہ رخ مرزا فرزند نواب صاحب لوہارو اور ان کے ایک دوست تھے۔ تیسری پر ان کے دو مصاحب اور چوتھی پر پولیس کے دو جوان تھے۔ رات کے کوئی دس بجے ہوں گے کہ ہم نے لوہارو چھوڑا۔ ریت میں قدم رکھتے ہی سانڈنیاں ریل ہو گئیں۔ گردن لمبی کر کے جو قدم بڑھانے شروع کئے تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ دریا میں کشتی بہی جا رہی ہے۔ کوئی دس بجے ہوں گے کہ ایک طرف سے دو اور سانڈنیاں آتی ہوئی دکھائی دیں۔ شاہ رخ مرزا نے آواز دے کر ان کو روکا۔ ان دونوں سانڈنیوں پر دو ٹھاکر اور ان کے دو نوکر سوار تھے پوچھا:’’کہاں جاتے ہو؟’‘ جواب ملا:’’شکار کے لئے۔’‘ بعد میں معلوم ہوا کہ شکار کو جانے کے معنی ہیں ڈاکہ ڈالنے کے لیے اور ان کا یہ کمال بھی معلوم ہوا کہ یہ لوگ اپنی سانڈنیوں پر پچاس ساٹھ میل جاتے ہیں۔ ڈاکہ ڈالتے ہیں اور صبح سے پہلے گھر واپس آ جاتے ہیں۔ غرض وہ تو شکار کے لئے چلے گئے اور ہم آگے بڑھے۔ چاندنی خوب کھلی ہوئی تھی۔ شاہرخ مرزا نے اپنی سانڈنی بڑھائی۔ ان کے ہمراہیوں نے ان کا ساتھ دیا۔ اور رہ گئے کون؟ ہم اور مرزا سلیم بیگ۔ ہم بھلا ان کا کیا ساتھ دے سکتے تھے۔ تھوڑی دیر میں وہ نظروں سے غائب ہو گئے۔ اب ہماری حالت زار کا نقشا ملاحظہ ہو۔ جنگل بیابان، کف دست میدان ہے۔ راستہ کا نام و نشان نہیں۔ کچھ اونٹوں کے پاؤں کے نشان ہیں۔ مگر ان نشانوں نے ایک دوسرے کو اس طرح کاٹا ہے کہ خاصہ بھول بھلیوں کا نا قابل حل نقشا بن گیا ہے۔ ہم دو عدد شخص ہیں۔ اور اونٹ کی پیٹھ ہے۔ نیچے ریت ہے اوپر چاندنی۔ اور آسمان کے اوپر اللہ میاں۔ جب سانڈنی کو بھگاتے بھگاتے تھک گئے اور ’’نشان یار‘‘ نہ ملا تو لاچار ٹھہر گئے۔ مشورے ہوئے۔ غور کیا گیا اور اللہ کا نام لے کر سانڈنی کی ڈوری ڈھیلی کر کے اس کو اجازت دے دی گئی کہ تیرا جہاں جی چاہے لے چل۔ سانڈنی نے فراٹے بھرنے اور ہم نے اس کے اوپر جھٹکے کھانے شروع کئے۔ رات کے کوئی دو بجے ہوں گے کہ دور سے چاندنی میں دو اونٹ کھڑے نظر آئے۔ ڈر ہوا کہ کہیں یہ وہ ’’شکاری‘‘ ہی نہ ہوں لیکن کیا کیا جاتا۔ سانڈنی رکنے کا نام نہیں لیتی تھی۔ آخر ان اونٹوں کے پاس پہنچ گئے۔ اس وقت معلوم ہوا کہ شاہ رخ مرزا اور ان کے ساتھی آرام فرما رہے ہیں۔ وہاں ہم بھی اترے۔ تھوڑی دیر آرام کیا اور چل کھڑے ہوئے۔ جوٹی کے پاس تھوڑا سا پہاڑی حصہ اور خاصہ اچھا اتار ہے۔ اس جگہ ہماری سانڈنی نے ٹھوکر کھائی۔ میاں سلیم بیگ نے ڈوری زور سے گھسیٹی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ڈوری چٹ سے ٹوٹ گئی۔ وہ تو کہو کہ سانڈنی اس گھسیٹم گھساٹ سے سنبھل چکی تھی، جو سیدھی کھڑی ہو گئی۔ ورنہ ہم دونوں کو ختم ہو جانے میں کوئی کسر نہیں رہی تھی۔ چلتے وقت سگریٹ کے ایک بڑے ڈبے میں کوئی ڈیڑھ سو پان لے کر چلے تھے۔ یہ ڈبہ میرے پاس تھا۔ میں نے راستہ میں ’’شغل تنہائی‘‘ اس تیزی سے کیا کہ جوٹی پہنچتے پہنچتے یہ’’دیسی خاصدان‘‘ سخی کے دل کی طرح صاف ہو گیا۔ سانڈنی کے سنبھلنے کے بعد میاں سلیم بیگ نے پان مانگا بھلا اب پان کہاں دھرا تھا۔ یہ سن کر انہیں بہت تاؤ آیا۔ مگر یہ سمجھ کر کہ اونٹ پر بیٹھ کر غصہ کرنا یا ہاتھ پاؤں ہلانا خالی از خطرہ نہیں ہے، چپ ہو گئے صبح ہم بھوانی پہنچے اور چار بجے’’داخل دلی‘‘ ہو گئے۔ حیدر آباداب کیا تھا حیدر آباد جانے کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ اور ہم نے تیسرے ہی روز دہلی چھوڑدی۔ یہ جلدی اس لئے کی گئی تھی کہ کہیں حیدر آباد جانے کی اصلی وجہ نہ کھل جائے اور ساری کی کرائی محنت برباد ہو جائے۔ 15 اگست 1907م ؍ 11؍ مہر 1316ف کو صبح کے 8 بجے پنجاب میل سے روانہ ہوئے۔ دوسرے دن 12 بجے کے قریب منماڑ پہنچے۔ 10 بجے چھوٹی لائن سے منماڑ چھوڑا۔ اس زمانے میں لاسور کے اسٹیشن پر قرنطینہ تھا۔ اس سے ڈر لگتا تھا کیونکہ سنا تھا کہ مسافروں کو زبردستی یہاں اتار کر کئی روز تک رکھتے ہیں۔ لیکن ہماری تو یہاں صرف نبض دیکھی گئی۔ اورایک حکم نامہ دے دیا گیا کہ افضل گنج اسپتال میں جا کر روزانہ 8 دن تک معائنہ کرایا کرو۔ بے چارے درجہ سوم کے مسافروں پر مصیبت آئی۔ سب کے سب اتار لئے گئے اور ساری گاڑی خالی ہو گئی۔ اورنگ آباد کے اسٹیشن پر بھائی حیدر جیون بیگ ملے، جو یہاں ناظم ضلع (ڈسٹرکٹ جج) تھے۔ یہاں سے نکل کر جو گاڑی نے جوں کی چال چلنی شروع کی تو طبیعت بے زار ہو گئی۔ دوسرے دن شام کے 5 بجے حیدر آباد پہنچے، منماڑ سے تار دے دیا تھا۔ اس لئے اسٹیشن پر والد صاحب قبلہ اور بھائی مرزا حسین احمد بیگ اور مرزا رفیق بیگ موجود تھے۔ ان کے ساتھ عابد کی دوکان سے ہوتے ہوئے اور ریزیڈنس کے پہلوسے گزرتے ہوئے چنچل گوڑہ پہنچے اور بھائی خواجہ امیر الدین (مرحوم) کے ہاں جا اترے۔ لیجئے ایک مشکل آسان ہو گئی۔
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |