Jump to content

میری تو بساط چشم تر ہے

From Wikisource
میری تو بساط چشم تر ہے
by میر تقی میر
314984میری تو بساط چشم تر ہےمیر تقی میر

میری تو بساط چشم تر ہے
سو نذر ہے اس پہ گر نظر ہے
اس دشت میں زندہ ہوں میں جس میں
ہر گام پہ جان کا خطر ہے
گرمی تو کر اے صنم کہ آخر
پتھر کے جگر میں بھی شرر ہے
پیری میں بھی بوجھ ٹک نہ پکڑا
زاہد تو تو ہنوز خر ہے
مرتا ہوں جو میں تو عیب مت کر
عاشق میں تو ایک پھر ہنر ہے
کیا ہوتا ہے قتل گہ میں دیکھیں
تیری شمشیر میرا سر ہے
کہہ تو ہی کہاں تلک کریں صبر
ہم ہیں دشنہ ہے اور جگر ہے
آنے سے ڈرو نہ دل میں میرے
خوباں یہ تو تمھارا گھر ہے
لبریز گلہ ہوں گرچہ لیکن
ہونٹھوں پہ نہ حرف کا اثر ہے
چپ ہوں گویا ہوں بے زباں میں
رکھتا ہوں عجب لب و دہاں میں

تقصیر ہے بوالہوس کی اور مفت
مارا جاتا ہوں درمیاں میں
اکسا بھی نہ تیغ کھا کے بارے
فارغ ہوا دے کے امتحاں میں
اے طفل کہے گا بعد میرے
مارا کاہے کو یہ جواں میں
ہوں میں تو چراغ اخیر شب کا
کوئی دم کا ہوں میہماں میں
دل سوزی مری کر اے صبا ٹک
ہونے تئیں صبح کے کہاں میں
رونے ہی کو روتا ہے گا ناصح
پھرتا ہوں ڈبائے خانماں میں
کوئی نہیں شہر غم میں میرا
بے چارہ غریب ہوں گا یاں میں
غم کہہ کے رلاتا ہوں میں سب کو
تجھ غم میں ہوا ہوں روضہ خواں میں
پائی نہ وفا کسی میں دیکھا
غربال تمام کر جہاں میں
بارے میں یہ سب دیار دیکھا
ہر کوچے کو بار بار دیکھا

شب ہی عالم میں ہوگئی تھی
اپنے دل کا غبار دیکھا
آنکھیں گئیں روتے روتے لیکن
تونے نہ ادھر کو یار دیکھا
اب وعدہ نہ کر زیادہ بس ہم
جاناں ترا اعتبار دیکھا
کہتے تھے یہ ہم نہ کر تمنا
اے جان امیدوار دیکھا
دامن میں گرا ہو ٹکڑے ٹکڑے
ہم نے جی کو فگار دیکھا
آنکھوں سے اٹھایا آبلوں کے
صحرا میں جدھر کو خار دیکھا
پوچھا نہ ہمارے بعد ہم کو
یارو یہ جہاں کا پیار دیکھا
مدت تئیں دید کر جہاں کا
طرز و وضع و شعار دیکھا
دیکھا تو ملا نہ کوئی ہم فن
دیکھے یہاں شیخ اور برہمن

عقل اول کو اک سنا تھا
نکلا سو معارضے میں کودن
آنکھوں میں ٹھہر رہے ہیں آنسو
ہونٹھوں پہ دھرا رہے ہے شیون
شیوہ ہے ہمارا نالہ کرنا
یاں سے کچھ سیکھ مرغ گلشن
تجھ بن نہیں سانس اور کچھ ہے
چبھتا ہے جگر میں ہو کے سوزن
اے برق ادھر نہ آ ہمارے
ہر خوشے میں شعلوں کے ہیں خرمن
ہم وے ہیں کہ باغ کر دکھائیں
اشک گل گوں سے طرف دامن
سختی ایام کی جو کہیے
ہوویں ابھی موم سنگ و آہن
کیا تجھ سے سپہ گری جتاویں
گر خود و زرہ نہ ہو نہ جوشن
مجروح یہ ہیں گے ہم جو اڑ جائیں
بھاگے ابھی جان لے تہمتن
ایسے تو ہیں پر وفا میں ویسے
خوباں تم ہو جفا میں جیسے

پھر جاتے ہیں غیر اس سے ملنے
آتے نہیں باز ایسے تیسے
ہم رستم عشق ہیں گے کیونکر
منھ موڑیں ہزار پانسے سے
سرکش نہ ہو زیر چرخ ان نے
پامال کیے ہیں کیسے کیسے
ہے بندہ نواز ظلم مجھ پر
ہم نالہ نہ کر تو مجھ کو نے سے
گو موسم دے خنک ہو مجھ سے
دل گرمی ہے مجھ کو زور مے سے
ٹک دیکھ فلک نے شاہ خوباں
کیا کچھ کیا خاندان کے سے
سر بیچے سو عشق میں رکھے پا
واقف نہیں دل تو یاں کی رے سے
ہاتھوں میں مرے ہیں داغ خوباں
کہتے ہیں کہ اس کنے ہیں پیسے
کیا تجھ سے کہوں معاش اپنی
بارے گذرے ہے جیسے تیسے
رہتا ہے غرض ہمیشہ سودا
کوچہ کوچہ ہوا ہوں رسوا

وہ تشنہ دہن ہوں دل جلا ہوں
لب چش جس کا نہ ہووے دریا
کہتے ہو جسے فلک ہوا ہے
میرے ہی غبار دل سے پیدا
کھلتا تو سہی کبھی بلا سے
دل میرا ہی کاش غنچہ ہوتا
اب جان سے جانا آرہا ہے
موقوف اشارۂ تقاضا
ہو جس کی خراب عاقبت بھی
وہ میں ہوں کہ دین ہے نہ دنیا
میں ہوں کہ سرآمد جنوں ہوں
مجنوں کو خلیفہ میں کیا تھا
وہ خستہ ہوں میں ہی جس کو کہیے
رونق افزاے کوہ و صحرا
یہ کچھ جو کہہ گیا بتاں میں
خاطر میں تمھاری بھی کچھ آیا
یا یوں ہی بکا میں کچھ تو بولو
خواہاں ہو تو خامشی ہے یہ کیا
سودا نہیں کچھ وگرنہ مجھ کو
کرتا ہے کوئی زیان جی کا
گر اتنے پہ دل برا ہے میرا
موقوف کرو خدا ہے میرا

تم کو تو ہے کیا مرے ملے سے
پر اس میں بتاں بھلا ہے میرا
مرنے سے ڈرا نہ مجھ کو قاتل
جی دینا تو مدعا ہے میرا
زنہار حنا کہ اس کے پا پر
مدت سے یہ سر لگا ہے میرا
سودا بہ رضا ہے مل ہر اک سے
لگتا صنم اس میں کیا ہے میرا
یک نیم نگہ سے مول لے چک
ٹک دیکھ کہ یہ بہا ہے میرا
میں ہوں کہ ہلاہل الم سے
کٹ کٹ کے جگر گرا ہے میرا
جاؤ کہ رہو یہ جی جفا سے
کچھ ہو شیوہ وفا ہے میرا
کاکل کو نہ کھول الجھنے کو
دل زور ہی منچلا ہے میرا
جوں توں کرکے طپش سے شب کو
مژگاں پہ جگر رہا ہے میرا
کل تک تو مرا یہ دل بجا تھا
اپنا دلخواہ مدعا تھا

تھے جن و ملک جلو میں میری
اقبال مرا کوئی بلا تھا
تھا روے زمیں پہ شاد و خرم
کیا جانوں فلک کے جی میں کیا تھا
ایسا ہی نہ تھا بتو میں آگے
آخر کوئی میرا بھی خدا تھا
ہوتے جو شہید یک تمنا
سو سو طرفوں سے خوں بہا تھا
اک روز چنانچہ ہول دل سے
اندوہ تنک مجھے ہوا تھا
لوہو دیا اپنا دوستوں نے
جس جاگہ مرا عرق گرا تھا
ہوں اب جو بلا میں مبتلا میں
بیگانہ ہے جوکہ آشنا تھا
یہ رنج و بلا و درد و محنت
اے واے حواس و صبر و طاقت

ایدھر بھی کبھو ٹک ایک چشمک
ہم سے بھی ضرور ہے مروت
مت فرصت وقت سے ہو غافل
آخر کو نہ کھینچے تا خجالت
ہر آن میں اپنی تربیت کر
دیتا ہے زمانہ کس کو فرصت
غیروں کے رہوگے دیر تک تم
ہم کو تو سویرے کرکے رخصت
کیا تم سے کہیں سلوک ہجراں
دل میں نہ رکھی ہمارے حسرت
قطرہ تو ہے پر نہ ہاتھ اٹھاؤ
دریا کو کرے ہے یہ کفایت
خالی دل پر کو ہم بھی کرتے
افسوس نہ دی اجل نے فرصت
بس میرا ہو تو کروں منادی
کوئی نہ کرے کہیں محبت
گردن ماریں شتابی اس کو
رکھے جو کسی سے میرؔ الفت


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.