موج نکہت کی صبا دیکھ سواری تیار
موج نکہت کی صبا دیکھ سواری تیار
خار سے کی ہے گل تر نے کٹاری تیار
کہہ دو مجنوں سے کرے اپنی سواری تیار
آج یاں ہوتی ہے لیلیٰ کی سواری تیار
ہاتھ دونوں کف افسوس کی صورت لکھے
کی جو نقاش نے تصویر ہماری تیار
تیغ کو سان پہ رکھا تھا تبھی قاتل نے
گردن اپنی نہ ہوئی تھی ابھی ساری تیار
لب جاں بخش کی تیرے جو صفا کو دیکھے
آب حیواں ہو پئے آئینہ داری تیار
کس مسی زیب کا گلشن سے سنا ہے جانا
برگ سوسن نے جو پھر کی ہے کٹاری تیار
ہم سبک روح اسیروں کے لیے لازم ہے
قفس گل کو کرے باد بہاری تیار
ہار کیوں اس کے گلے کا میں نہ ہوں زر گر نے
کی ہے زنجیر گلے کی ترے بھاری تیار
اے اجل زیست کا کیا ان سے تو مانگے ہے حساب
جو ہیں ہر دم پئے انفاس شماری تیار
سرخ نیفے سے پئے صید دل بو الہوساں
کمر اس کی ہوئی جوں یوز شکاری تیار
جوں جوں بڑھتے ہیں مرے دست جنوں کے ناخن
ووں ووں ہوتے ہیں پئے سینہ فگاری تیار
پتلیاں جائے ستاروں کی ٹکی ہیں اس میں
دیدہ ریزی سے ہوئی کفش تمہاری تیار
ہو خجل کیونکہ نہ نعماں کہ گلابی لالہ
مے سے کرتی ہے تری چشم خماری تیار
از برائے کمر نازک رشک رگ گل
باغباں کیجو تو پھولوں کی کٹاری تیار
لکھ بہ تبدیل قوافی غزل اک مصحفیؔ اور
نافۂ نقطہ سے کر مشک تتاری تیار
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |