موت اپنی جان اے دل گردش افلاک کو
Appearance
موت اپنی جان اے دل گردش افلاک کو
ڈوبنے کا خوف ہے گرداب میں تیراک کو
خود خجل ہو جس کو روشن دل سے ہو ناحق غبار
منہ پہ پڑتی ہے جو منہ پر پھینکتے ہیں خاک کو
مر گئے پر بھی تہ و بالا رہا اپنا غبار
شیشۂ ساعت میں رکھتے ہیں ہماری خاک کو
بستۂ فتراک ہوتے ہیں ہزاروں بلبلیں
جان کر باب گلستاں حلقۂ فتراک کو
کیا عجب گر استخواں روشن ہوں داغ عشق سے
اک شرر شعلہ بناتا ہے خس و خاشاک کو
خوب سا جی کھول کر آوارہ کر اے عشق یار
خوف رسوائی نہیں اصلاً دل بیباک کو
ہجر میں پیتا ہوں خون دل مئے گلگوں کی رنگ
دور ساغر جانتا ہوں گردش افلاک کو
کیا نہیں تعزیر ملتی ہے گناہ عشق کی
آتش فرقت جہنم ہے دل غم ناک کو
کیجئے نالے برنگ بلبل اے دل گر کبھی
ٹکڑے ٹکڑے مثل گل کر لے تیری پوشاک کو
روند ڈالا ہے زمین شعر سے تا چرخ فکر
روک لے عرشؔ اب عنان توسن چالاک کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |