مل گیا دل نکل گیا مطلب
Appearance
مل گیا دل نکل گیا مطلب
آپ کو اب کسی سے کیا مطلب
حسن کا رعب ضبط کی گرمی
دل میں گھٹ گھٹ کے رہ گیا مطلب
نہ سہی عشق دکھ سہی ناصح
تجھ کو کیا کام تجھ کو کیا مطلب
مژدہ اے دل کہ نیم جاں ہوں میں
اب تو پورا ہوا ترا مطلب
اپنے مطلب کے آشنا ہو تم
سچ ہے تم کو کسی سے کیا مطلب
آتش شوق اور بھڑکی ہے
منہ چھپانے کا کھل گیا مطلب
کچھ ہے مطلب تو دل سے مطلب ہے
مطلب دل سے ان کو کیا مطلب
ان کی باتیں ہیں کتنی پہلو دار
سب سمجھ لیں جدا جدا مطلب
اس کو گھر سے نکال کر خوش ہو
کیا حسنؔ تھا رقیب کا مطلب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |