ملے بے نشاں کے نشاں کیسے کیسے
ملے بے نشاں کے نشاں کیسے کیسے
بنے لا مکاں کے مکاں کیسے کیسے
ہوئے خاک دور جہاں کیسے کیسے
ہوئے حادثے ہیں یہاں کیسے کیسے
سنے وصل میں ہم بیاں کیسے کیسے
بہانے کئے وہ عیاں کیسے کیسے
قلق ہجر کے ہیں یہاں کیسے کیسے
گماں کرتے ہیں وہ وہاں کیسے کیسے
ہے کس کا دہن وصف لب میں تمہارے
سخنور ہوئے بے زباں کیسے کیسے
نہ شیریں ہی ہے اور نہ لیلیٰ ہے افسوس
جہاں سے گئے قدرداں کیسے کیسے
کئی کھاتے ہیں غم کئی ہیں بلانوش
ہیں اس خوان پر میہماں کیسے کیسے
گل داغ دل آہ سے کیوں نہ مرجھائے
اجاڑے چمن یہ خزاں کیسے کیسے
نصیبوں سے گھر بیٹھے آئے ہو اے جاں
کوئی مانتا ہوں میں ہاں کیسے کیسے
یہ چرخ کہن آہ چن چن کے مارا
تہ خاک ہیں نوجواں کیسے کیسے
قیامت کے مضمون ہیں لہراتے دل میں
صدف میں ہیں بحر رواں کیسے کیسے
مری ہم صفیری بھی ہے کھپر تیڑھی
ہیں غپ چپ ہی شیریں بیاں کیسے کیسے
مہ و لالہ و شمع کے داغ دیکھو
جلے عشق سے دود ماں کیسے کیسے
ہے کیوں وصف یوسف کے جو کارواں کا
جہاں سے گئے کارواں کیسے کیسے
الٰہی یہ کیا گردش آسماں ہے
جلانے لگے مہرباں کیسے کیسے
تصور سے بھی دیکھیے کیوں کمر کو
حجاب آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
ہر اک شام چلتے ہیں تیر نگہ یاں
نکلتے ہیں ابرو کماں کیسے کیسے
چھوا تھا کہ اک گھات انگئے کو ان کے
ہیں طوفاں اٹھے الاماں کیسے کیسے
میں قرباں خدائی کے وہ بت جو پوچھے
ہیں ارمان دل میں نہاں کیسے کیسے
کروں مے سے توبہ میں استغفر اللہ
لئے عہد و پیماں مغاں کیسے کیسے
امینی ہے جبریل پر گرچہ قاصد
ہمیں ہو رہے ہیں گماں کیسے کیسے
نسیمؔ ان کی بخشش بھی لا انتہا ہے
ہوئے جرم ہم سے عیاں کیسے کیسے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |