ملی کیا خاک راحت کنج مرقد میں نہاں ہو کر
Appearance
ملی کیا خاک راحت کنج مرقد میں نہاں ہو کر
زمین گور سر پر پھر رہی ہے آسماں ہو کر
چھری گردن پہ قاتل پھیرتا ہے شادماں ہو کر
نکلتا ہے مرا دم آرزوئے دشمناں ہو کر
ہمارے قتل کرنے کا نہ تھا اس شوخ کا منشا
ابھارا تیغ اور خنجر نے کیسا ہم زباں ہو کر
اڑا لے چل ہوائے شوق آگے سب سے منزل پر
رہا جاتا ہوں پیچھے میں تو گرد کارواں ہو کر
فقیر مست وہ ہوں میں اگر کچھ موج آ جائے
ابھی مے خانہ سے کشتیٔ مے آئے رواں ہو کر
عیاں آثار ہیں یہ آمد فصل بہاری کے
گریباں آ رہا دامن میں میرے دھجیاں ہو کر
This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries). |