ملتا جو کوئی ٹکڑا اس چرخ زبرجد میں
Appearance
ملتا جو کوئی ٹکڑا اس چرخ زبرجد میں
پیوند لگا دیتا میں نفس مجرد میں
بیداری فرقت میں تھا رمز قیامت کا
جاگا ہوں کہ نیند آئے تاریکئ مرقد میں
اس دفتر ہستی میں تعلیم بہت کم ہے
دو حرف نظر آئے دیباچۂ ابجد میں
گو خاک کا پتلا ہوں لیکن کوئی کیا سمجھے
میں بھی کوئی شے ہوں جو گردوں ہے مری کد میں
ہے ضبط کی فرمائش اس دل سے بہت بے جا
یہ قلزم لا ساحل کس طرح رہے حد میں
پہلو میں نہیں دل تو دل سوز ہی آ جاتا
اک شمع تو جل جاتی تاریکی مرقد میں
نالوں سے یہ کہتا ہوں ہمت سے نہ دل ہاریں
تاروں نے جگہ کر لی اس لوح زمرد میں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |