Jump to content

ملا ہوا کبھی سینے سے ان کے سینہ تھا

From Wikisource
ملا ہوا کبھی سینے سے ان کے سینہ تھا (1895)
by رنج حیدرآبادی
324369ملا ہوا کبھی سینے سے ان کے سینہ تھا1895رنج حیدرآبادی

ملا ہوا کبھی سینے سے ان کے سینہ تھا
عجب وہ روز تھے یا رب عجب مہینہ تھا

عدم میں جا کے کہیں گے ہر ایک سے ہم بھی
عبث فضول جہاں میں ہمارا جینا تھا

دغا رقیب نے کی آپ سے تو کیا شکوہ
زمانہ اس کو کہے گا کہ وہ کمینہ تھا

یہ کیا کہ یوں ہی چلے میکدے سے حضرت شیخ
تمہیں خدا کی قسم کوئی گھونٹ پینا تھا

جو تم نے سینہ مرا چاک چاک کر ڈالا
ہر ایک زخم کو تار نگہ سے سینا تھا

مہک رہا تھا مرا گھر تمام وصل کی شب
وہ عطر بیز کسی کا بھی کیا پسینا تھا

نہیں ہے دل جو ہمارا تو شب کو محفل میں
ذرا خیال کرو خود ہی کس نے چھینا تھا

جو تم نے لیتے ہی جلدی سے اس کو توڑ دیا
ہمارا دل تھا کوئی یا یہ آبگینہ تھا

وہ رند ہوں کہ زباں پر بھی وقت مرگ مری
صراحی و خم و جام و ایاغ و مینا تھا

یہاں رہی کہ وہاں پہونچی رنجؔ کی میت
زباں پہ اس کی مگر رات دن مدینہ تھا


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.