مضطرب ہوں اب یہ جی کی بات ہے
مضطرب ہوں اب یہ جی کی بات ہے
عفو کیجے بے خودی کی بات ہے
سیکڑوں عشاق کے توڑے ہیں دل
کیا تمہاری نازکی کی بات ہے
کیا عجب پوچھے نہ کوئی حشر میں
ایک یہ بھی بے کسی کی بات ہے
جس فغاں سے مانگتے تھے سب پناہ
اب وہ اک بے طاقتی کی بات ہے
مدتیں گزریں وصال یار کو
میری نظروں میں ابھی کی بات ہے
کہتے ہیں انجام اس کا موت ہے
جس قدر غم ہو خوشی کی بات ہے
اضطراب شوق میں کہنی پڑی
جو تری آزردگی کی بات ہے
اے دل امید اس سے ہے تاثیر کی
یہ فغاں ہے یا ولی کی بات ہے
پھرتے ہیں عہد وفا سے ہم کوئی
یہ بھی تم سے آدمی کی بات ہے
سچ کہا ہے دل کو ہے اک دل سے راہ
ان کے لب پر میرے جی کی بات ہے
غیر سے کچھ کہہ کے مجھ سے کہتے ہیں
تم کو کیا مطلب کسی کی بات ہے
وعدہ کیوں کرتے ہو کہہ دو گے ابھی
یاد کس کو ہے کبھی کی بات ہے
مجھ پہ وہ ہنگامہ گزرا ہے کہ لوگ
کل کہیں گے آج ہی کی بات ہے
دہر میں سالکؔ یہ پھیلا ہے نفاق
دوستی بھی دشمنی کی بات ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |