مشتاق ہی دل برسوں اس غنچہ دہن کا تھا
مشتاق ہی دل برسوں اس غنچہ دہن کا تھا
یارو مرے اور اس کے کب ربط سخن کا تھا
واں بالوں میں وہ مکھڑا جاتا تھا چھپا کم کم
یاں حشر مرے دل پر اک چاند گہن کا تھا
تھے خط شکستہ کی رخسار ترے تعلیم
از بس کہ ہجوم ان پر زلفوں کی شکن کا تھا
پروانے کی ہمت کے صدقے میں کہ دی شب وہ
اس بے پر و بالی پر قربان لگن کا تھا
آخر کو ہمیں ظالم پامال کیا تو نے
اندیشہ ہمیں دل میں تیرے ہی چلن کا تھا
میں اس قد و عارض کو کر یاد بہت رویا
مذکور گلستاں میں کچھ سرو و سمن کا تھا
جوں اشک سر مژگاں ہم پھر نہ نظر آئے
از بس کہ یہاں وقفہ اک چشم زدن کا تھا
دو پھول کوئی رکھ کر گزرا تھا جو کل یاں سے
تربت پہ مری بلوا مرغان چمن کا تھا
جس مرغ چمن کو میں دیکھا تو چمن میں بھی
حسرت کش نظارہ اس رشک چمن کا تھا
شب دیکھ مہ تاباں تھا مصحفیؔ تو حیراں
کیا اس میں بھی کچھ نقشہ اس سیم بدن کا تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |