Jump to content

مس مالا

From Wikisource
مس مالا (1955)
by سعادت حسن منٹو
325053مس مالا1955سعادت حسن منٹو

گانے لکھنے والے عظیم گوبند پوری جب اے بی سی پروڈکشنز میں ملازم ہوا تو اس نے فوراً اپنے دوست میوزک ڈائریکٹر بھٹسا وے کے متعلق سوچا جو مرہٹہ تھا اور عظیم کے ساتھ کئی فلموں میں کام کر چکا تھا۔ عظیم اس کی اہلیتوں کو جانتا تھا۔ا سٹنٹ فلموں میں آدمی اپنے جوہر کیا دکھا سکتا ہے، بے چارہ گمنامی کے گوشے میں پڑا تھا۔ عظیم نے چنانچہ اپنے سیٹھ سے بات کی اور کچھ اس انداز میں کی کہ اس نے بھٹساوے کو بلایا اور اس کے ساتھ ایک فلم کا کنٹریکٹ تین ہزار روپوں میں کرلیا۔ کنٹریکٹ پر دستخط کرتے ہی اسے پانچ سو روپے ملے جو اس نے اپنے قرض خواہوں کو ادا کردیے۔ عظیم گو بند پوری کا وہ بڑا شکر گزار تھا۔ چاہتا تھا کہ اس کی کوئی خدمت کرے، مگر اس نے سوچا، آدمی بے حد شریف ہے اور بے غرض۔۔۔ کوئی بات نہیں، آئندہ مہینے سہی۔ کیوں کہ ہر ماہ اسے پانچ سو روپے کنٹریکٹ کی رو سے ملنے تھے۔ اس نے عظیم سے کچھ نہ کہا۔ دونوں اپنے اپنے کام میں مشغول تھے۔

عظیم نے دس گانے لکھے جن میں سے سیٹھ نے چار پسند کیے۔ بھٹساوے نے موسیقی کے لحاظ سے صرف دو۔ ان کی اس نے عظیم کے اشتراک سے دھنیں تیار کیں جو بہت پسند کی گئیں۔

پندرہ بیس روز تک ریہرسلیں ہوتی رہیں۔ فلم کا پہلا گانا کورس تھا۔ اس کے لیے کم از کم دس گویا لڑکیاں درکار تھیں۔ پروڈکشن منیجر سے کہا گیا۔ مگر جب وہ انتظام نہ کرسکا تو بھٹساوے نے مس مالا کو بلایا جس کی آواز اچھی تھی۔ اس کے علاوہ وہ پانچ چھ اور لڑکیوں کو جانتی تھی جو سر میں گا لیتی تھیں۔ مس مالا کھانڈیکر جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ کولہا پور کی مرہٹہ تھی۔ دوسروں کے مقابلہ میں اس کا اردو کا تلفظ زیادہ صاف تھا۔ اس کو یہ زبان بولنے کا شوق تھا۔ عمر کی زیادہ بڑی نہیں تھی۔ لیکن اس کے چہرے کا ہر خدوخال اپنی جگہ پر پختہ۔ باتیں بھی اسی انداز میں کرتی کہ معلوم ہوتا اچھی خاصی عمر کی ہے، زندگی کے اتار چڑھاؤ سے باخبر ہے۔ اسٹوڈیو کے ہر کارکن کو بھائی جان کہتی اور ہر آنے والے سے بہت جلد گھل مل جاتی تھی۔

اس کو جب بھٹساوے نے بلایا تو وہ بہت خوش ہوئی۔ اس کے ذمے یہ کام سپرد کیا گیا کہ وہ فوراً کورس کے لیے دس گانے والی لڑکیاں مہیاکردے۔ وہ دوسرے روز ہی بارہ لڑکیاں لے آئی۔ بھٹساوے نے ان کا ٹیسٹ لیا۔ سات کام کی نکلیں۔ باقی رخصت کردی گئیں۔ اس نے سوچا کہ چلو ٹھیک ہے۔ سات ہی کافی ہیں۔ جگتاپ ساؤنڈ ریکارڈسٹ سے مشورہ کیا، اس نے کہا کہ میں سب ٹھیک کرلوں گا۔ ایسی ریکارڈنگ کروں گا کہ لوگوں کو ایسا معلوم ہوگا بیس لڑکیاں گا رہی ہیں۔

جگتاپ اپنے فن کو سمجھتا تھا، چنانچہ اس نے ریکارڈنگ کے لیے ساؤنڈ پروف کمرے کے بجائے سازندوں اور گانے والیوں کو ایک ایسے کمرے میں بٹھایا جس کی دیواریں سخت تھیں، جن پر ایسا کوئی غلاف چڑھا ہوا نہیں تھا کہ آواز دب جائے۔ فلم ’’بے وفا‘‘ کا مہورت اسی کورس سے ہوا۔ سیکڑوں آدمی آئے۔ ان میں بڑے بڑے فلمی سیٹھ اور ڈسٹری بیوٹرز تھے۔ اے، بی، سی پروڈکشنز کے مالک نے بڑا اہتمام کیا ہوا تھا۔

پہلے گانے کی دو چار ریہرسلیں ہوئیں، مس مالا کھانڈیکر نے بھٹساوے کے ساتھ پورا تعاون کیا۔ سات لڑکیوں کو فرداً فرداً آگاہ کیا کہ خبردار رہیں اور کوئی مسئلہ پیدا نہ ہونے دیں۔بھٹساوے پہلی ہی ریہرسل سے مطمئن تھا لیکن اس نے مزید اطمینان کی خاطر چند اور ریہرسلیں کرائیں، اس کے بعد جگتاپ سے کہا کہ وہ اپنا اطمینان کرلے، اس نے جب ساؤنڈ ٹریک میں یہ کورس پہلی مرتبہ ہیڈفون لگا کر سنا تو اس نے خوش ہوکربہت اونچا ’’اوکے‘‘ کہہ دیا۔ ہر ساز اور ہر آواز اپنے صحیح مقام پرتھی۔ مہمانوں کے لیے مائکرو فون کا انتظام کردیا گیا تھا۔ ریکاڈنگ شروع ہوئی تو اسے اون کردیا گیا۔ بھٹساوے کی آواز بھونپو سے نکلی۔ سونگ نمبر 1، ٹیک فرسٹ ریڈی، ون۔ ٹو۔

اور کورس شروع ہوگیا۔

بہت اچھی کمپوزیشن تھی۔ سات لڑکیوں میں سے کسی ایک نے بھی کہیں غلط سر نہ لگایا۔ مہمان بہت محظوظ ہوئے۔ سیٹھ، جوموسیقی کیا ہوتی ہے؟ اس سے بھی قطعاً نا آشنا تھا، بہت خوش ہوا، اس لیے کہ سارے مہمان اس کورس کی تعریف کررہے تھے۔ بھٹساوے نے سازندوں اور گانے والیوں کو شاباشیاں دیں۔ خاص طور پر اس نے مس مالا کا شکریہ ادا کیا جس نے اس کو اتنی جلدی گانے والیاں فراہم کردیں۔ اس کے بعد وہ جگتاپ ساؤنڈ ریکارڈسٹ سے گلے مل رہا تھا کہ اے، بی، سی پروڈکشنز کے مالک سیٹھ رنچھوڑ داس کا آدمی آیا کہ وہ اسے بلارہے ہیں، عظیم گوبندپوری کو بھی۔

دونوں بھاگےاسٹوڈیو کے اس سرے پر گئے جہاں محفل جمی تھی۔ سیٹھ صاحب نے سب مہمانوں کے سامنے ایک سو روپے کا سبز نوٹ انعام کے طور پر پہلے بھٹساوے کو دیا، پھر دوسرا عظیم گوبندپوری کو۔وہ مختصر سا باغیچہ جس میں مہمان بیٹھے تھے، تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا۔

جب مہورت کی یہ محفل برخواست ہوئی تو بھٹساوے نے عظیم سے کہا، ’’مال پانی ہے چلو آؤٹ ڈور چلیں‘‘ عظیم اس کا مطلب نہ سمجھا، ’’آؤٹ ڈور کہاں؟‘‘ بھٹساوے مسکرایا، ’’مازے ملگے(میرے لڑکے) موز شوک (موج شوق) کرنے جائیں گے۔ سو روپیہ تمہارے پاس ہے سو، ہمارے پاس۔۔۔ چلو۔‘‘عظیم سمجھ گیا۔ لیکن وہ اس کے موز شوک سے ڈرتا تھا، اس کی بیوی تھی، دو چھوٹے چھوٹے بچے بھی، اس نے کبھی عیاشی نہیں کی تھی۔ مگر اس وقت وہ خوش تھا۔ اس نے اپنے دل سے کہا۔۔۔ چلورے۔۔۔ دیکھیں گے کیا ہوتا ہے؟

بھٹساوے نے فوراً ٹیکسی منگوائی، دونوں اس میں بیٹھے اور گرانٹ روڈ پہنچے۔ عظیم نے پوچھا’’ ہم کہاں جارہے ہیں؟ بھٹساوے؟‘‘ وہ مسکرایا،’’اپنی موسی کے گھر۔‘‘ اور جب وہ اپنی موسی کے گھر پہنچا تو وہ مس مالا کھانڈیکر کا گھر تھا۔ وہ ان دونوں سے بڑے تپاک کے ساتھ ملی، انھیں اندر اپنے کمرے میں لے گئی۔ ہوٹل سے چائے منگوا کر پلائی۔ بھٹساوے نے اس سے چائے پینے کے بعد کہا، ’’ہم موز شوک کے لیے نکلے ہیں، تمہارے پاس۔۔۔ تم ہمارا کوئی بندوبست کرو۔‘‘ مالا سمجھ گئی وہ بھٹساوے کی احسان مند تھی۔ اس لیے اس نے فوراً مرہٹی زبان میں کہا جس کا یہ مطلب تھا کہ میں ہر خدمت کے لیے تیار ہوں۔

دراصل بھٹساوے عظیم کو خوش کرنا چاہتا تھا، اس لیے کہ اس نے اس کو ملازمت دلوائی تھی۔ چنانچہ بھٹساوے نے مس مالا سے کہا کہ وہ ایک لڑکی مہیا کردے۔مس مالا نے اپنا میک اپ جلدی جلدی ٹھیک کیا اور تیار ہوگئی۔۔۔ سب ٹیکسی میں بیٹھے۔ پہلے مس مالا پلے بیک سنگر شانتا کرناکرن کے گھر گئی مگر وہ کسی اور کے ساتھ باہر جا چکی تھی۔ پھر وہ انسویا کے ہاں گئی مگر وہ اس قابل نہیں تھی کہ ان کے ساتھ ایسی مہم پر جاسکے۔

مس مالا کو بہت افسوس تھا کہ اسے دو جگہ ناامیدی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کو امید تھی کہ معاملہ ہو جائے گا چنانچہ ٹیکسی گول پیٹھا کی طرف چلی۔ وہاں کرشنا تھی۔ پندرہ سولہ برس کی گجراتی لڑکی، بڑی نرم و نازک سُر میں گاتی تھی۔ مالا اس کے گھر میں داخل ہوئی اور چند لمحات کے بعد اس کو ساتھ لیے باہر نکل آئی۔ بھٹساوے کو اس نے ہاتھ جوڑ کے نمسکار کیا اور عظیم کو بھی۔ مالا نے ٹھیٹ دلالوں کے سے انداز میں عظیم کو آنکھ ماری اور گویا خاموش زبان میں اس سے کہا، ’’یہ آپ کے لیے ہے۔‘‘

بھٹساوے نے اس پر نگاہوں ہی نگاہوں میں صادکردیا۔ کرشنا، عظیم گوبندپوری کے پاس بیٹھ گئی۔ چونکہ اس کو مالا نے سب کچھ بتا دیا تھا، اس لیے وہ اس سے چہلیں کرنے لگی۔ عظیم لڑکیوں کا سا حجاب محسوس کررہا تھا۔ بھٹساوے کو اس کی طبیعت کا علم تھا۔ اس لیے اس نے ٹیکسی ایک بار کے سامنے ٹھہرائی، صرف عظیم کو اپنے ساتھ اندر لے گیا۔ نغمہ نگار نے صرف ایک دو مرتبہ پی تھی، وہ بھی کاروباری سلسلے میں۔ یہ بھی کاروباری سلسلہ تھا۔ چنانچہ اس نے بھٹساوے کے اصرار پر دو پیگ رم کے پیے اور اس کو نشہ ہوگیا۔ بھٹساوے نے ایک بوتل خرید کے اپنے ساتھ رکھ لی۔ اب وہ پھر ٹیکسی میں تھے۔ عظیم کو اس بات کا قطعاً علم نہیں تھا کہ اس کا دوست بھٹساوے دو گلاس اور سوڈے کی بوتلیں بھی ساتھ لے آیا ہے۔

عظیم کو بعد میں معلوم ہوا کہ بھٹساوے پلے بیک سنگر کرشناکی ماں سے یہ کہہ آیا تھا کہ جو کورس دن میں لیا گیا تھا، اس کے جتنے ٹیک تھے سب خراب نکلے ہیں اس لیے رات کو پھر ریکارڈنگ ہوگی۔ اس کی ماں ویسے کرشنا کو باہر جانے کی اجازت کبھی نہ دیتی۔ مگر جب بھٹساوے نے کہا کہ اسے اور روپے ملیں گے تو اس نے اپنی بیٹی سے کہا جلدی جاؤ اور فارغ ہو کر سیدھی یہاں آؤ۔ وہاں اسٹوڈیو میں نہ بیٹھی رہنا۔

ٹیکسی ورلی پہنچی، یعنی ساحلِ سمندر کے پاس۔ یہ وہ جگہ تھی، جہاں عیش پرست کسی نہ کسی عورت کو بغل میں دبائے آیا کرتے۔ ایک پہاڑی سی تھی، معلوم نہیں مصنوعی یا قدرتی۔۔۔ اس پر چڑھتے۔۔۔ کافی وسیع وعریض سطح مرتفع قسم کی جگہ تھی۔اس میں لمبے فاصلوں پر بنچیں رکھی ہوئی تھیں، جن پرصرف ایک ایک جوڑا بیٹھتا۔ سب کے درمیان ان لکھا سمجھوتا تھاکہ وہ ایک دوسرے کے معاملے میں مخل نہ ہوں۔ بھٹساوے نے جو کہ عظیم کی دعوت کرنا چاہتا تھا ورلی کی پہاڑی پر کرشنا کو اس کے سپرد کردیااور خود مالا کے ساتھ ٹہلتا ٹہلتا ایک جانب چلا گیا۔

عظیم اور بھٹساوے میں ڈیڑھ سو گز کا فاصلہ ہوگا۔ عظیم جس نے غیر عورت کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ محسوس کیا تھا، جب کرشنا کو اپنے ساتھ لگے دیکھا تو اس کا ایمان متزلزل ہوگیا۔ کرشنا ٹھیٹ مرہٹی لڑکی تھی،سانولی سلونی، بڑی مضبوط، شدید طور پر جوان اور اس میں وہ تمام دعوتیں تھیں جو کسی کھل کھیلنے والی میں ہو سکتی ہیں، عظیم چونکے نشے میں تھا، اس لیے وہ اپنی بیوی کو بھول گیا اور اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کرشنا کو تھوڑے عرصے کے لیے بیوی بنالے۔ اس کے دماغ میں مختلف شرارتیں پیدا ہورہی تھیں۔ کچھ رم کے باعث اور کچھ کرشنا کی قربت کی وجہ سے۔ عام طور پروہ بہت سنجیدہ رہتا تھا۔ بڑا کم گولیکن اس وقت اس نے کرشنا کے گدگدی کی۔ اس کو کئی لطیفے اپنی ٹوٹی پھوٹی گجراتی میں سنائے۔ پھر جانے اسے کیا خیال آیا کہ زور سے بھٹساوے کو آواز دی اور کہا، ’’پولیس آرہی ہے۔ پولیس آرہی ہے۔‘‘

بھٹساوے، مالا کے ساتھ آیا۔ عظیم کو موٹی سی گالی دی اور ہنسنے لگا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ عظیم نے اس سے مذاق کیا ہے۔ لیکن اس نے سوچا، بہتریہی ہے کسی ہوٹل میں چلیں، جہاں پولیس کا خطرہ نہ ہو۔ چاروں اٹھ رہے تھے کہ پیلی پگڑی والا نمودار ہوا۔ اس نے ٹھیٹ سپاہیانہ انداز میں پوچھا، ’’تم لوگ رات کے گیارہ بجے یہاں کیا کررہا ہے؟ مالوم نہیں، دس بجے سے پیچھے یہاں بیٹھنا ٹھیک نہیں ہے، کانون ہے۔‘‘ عظیم نے سنتری سے کہا، ’’جناب اپن فلم کا آدمی ہے، یہ چھوکری، اس نے کرشنا کی طرف دیکھا۔ یہ بھی فلم میں کام کرتی ہے۔ ہم لوگ کسی برے خیال سے یہاں نہیں آئے، یہاں پاس ہی جو اسٹوڈیو ہے، اس میں کام کرتے ہیں، تھک جاتے ہیں تو یہاں چلے آتے ہیں کہ تھوڑی سی تفریح ہوجائے، بارہ بجے ہماری شوٹنگ پھر شروع ہونے والی ہے۔‘‘

پیلی پگڑی والا مطمئن ہو گیا، پھر وہ بھٹساوے سے مخاطب ہوا، ’’تم ادھر کیوں بیٹھا ہے؟‘‘ بھٹساوے پہلے گھبرایا۔لیکن فوراً سنبھل کر اس نے مالا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور سنتری سے کہا، ’’یہ ہمارا وائف ہے، ہماری ٹیکسی نیچے کھڑی ہے۔‘‘ تھوڑی سی اور گفتگو ہوئی اور چاروں کی خلاصی ہوگئی۔ اس کے بعد انھوں نے ٹیکسی میں بیٹھ کر سوچا کہ کس ہوٹل میں چلیں۔ عظیم کو ایسے ہوٹلوں کے بارے میں کوئی علم نہیں تھاجہاں آدمی چند گھنٹوں کے لیے کسی غیر عورت کے ساتھ خلوت اختیار کرسکے۔ بھٹساوے نے بیکار اس سے مشورہ کیا۔ چنانچہ اس کو فوراً ڈوک یارڈ کا سی ویو ہوٹل یاد آیا اور اس نے ٹیکسی والے سے کہا کہ وہاں لے چلو۔ سی ویو ہوٹل میں بھٹساوے نے دو کمرے لیے۔ ایک میں عظیم اور کرشناچلے گئے، دوسرے میں بھٹساوے اور مس مالاکھانڈیکر۔

کرشنا بدستور مجسم دعوت تھی، لیکن عظیم جس نے دو پیگ اور پی لیے تھے، فلسفی رنگ اختیار کرگیا تھا، اس نے کرشنا کو غور سے دیکھا اور سوچا کہ اتنی کم عمر کی لڑکی نے گناہ کا یہ بھیانک رستہ کیوں اختیار کیا؟ خون کی کمی کے باوجود اس میں اتنی تپش کیوں ہے؟ کب تک یہ نرم و نازک لڑکی جو گوشت نہیں کھاتی اپنا گوشت پوست بیچتی رہے گی؟ عظیم کو اس پر بڑا ترس آیا، چنانچہ اس نے واعظ بن کر اس سے کہنا شروع کیا، ’’کرشنا معصیت کی زندگی سے کنارہ کش ہو جاؤ، خدا کے لیے اس راستے سے جس پر کہ تم گامزن ہو، اپنے قدم ہٹالو، یہ تمہیں ایسے مہیب غار میں لے جائے گا، جہاں سے تم نکل نہیں سکو گی۔ عصمت فروشی انسان کا بدترین فعل ہے۔ یہ رات اپنی زندگی کی روشن رات سمجھو، اس لیے کہ میں نے تمہیں نیک و بد سمجھا دیا ہے۔‘‘

کرشنا نے اس کا جو مطلب سمجھا وہ یہ تھاکہ عظیم اس سے محبت کررہا ہے۔ چنانچہ وہ اس کے ساتھ چمٹ گئی اورعظیم اپنا گناہ وثواب کا مسئلہ بھول گیا۔ بعد میں وہ بڑا نادم ہوا۔ کمرے سے باہر نکلا تو بھٹساوے برآمدے میں ٹہل رہا تھا۔ کچھ اس انداز سے جیسے اس کو بھڑوں کے پورے چھتے نے کاٹ لیا ہے اور ڈنک اس کے جسم میں کھبے ہوئے ہیں۔ عظیم کو دیکھ کر وہ رک گیا، مطمئن کرشنا کی طرف ایک نگاہ ڈالی اور پیچ وتاب کھا کر عظیم سے کہا، ’’وہ سالی چلی گئی۔‘‘

عظیم جو اپنی ندامت میں ڈوبا تھا، چونکا، ’’کون؟‘‘

’’وہی، مالا۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

بھٹساوے کے لہجے میں عجیب وغریب احتجاج تھا، ہم اس کو اتنا وخت چومتے رہے جب بولا کہ آؤ تو سالی کہنے لگی، ’’ تم ہمارا بھائی ہے۔ ہم نے کسی سے شادی کرلی ہے۔۔۔ اور باہر نکل گئی کہ وہ سالا گھر میں آگیا ہوگا۔‘‘


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.