مسلخ عشق میں کھنچتی ہے خوش اقبال کی کھال
مسلخ عشق میں کھنچتی ہے خوش اقبال کی کھال
بھیڑ بکری سے ہے کم قدر بد اعمال کی کھال
جس کی بوسے کے تصور سے چھلے گال کی کھال
تاب کیا لاوے عرق پونچھتے رومال کی کھال
نقش اس کا بھی کیا دور فلک نے باطل
تھی جو کاوے کے علم سے بندھی اقبال کی کھال
نہیں قصاب اجل سے کوئی بے غم ہرگز
پوستیں چھینے یہ منعم کی تو کنگال کی کھال
تن دہی جب نہ کریں کام میں استاد کے یہ
قمچیوں سے نہ ادھیڑے وہ پھر اطفال کی کھال
بند رومی ہے سمور اس کے پہ کام آں روزوں
دیکھنے میں کبھی آئی نہ تھی اس جال کی کھال
بد گمانی نہ ہو کیوں تب کے گئے پر افزوں
دیکھ اکھڑے لب معشوق کے تبخال کی کھال
مالک الملک نصاریٰ ہوئے کلکتے کے
یہ تو نکلی عجب اک وضع کی جنجال کی کھال
جھریاں کیوں نہ پڑیں عمر فزوں میں منہ پر
تن پہ جب لائے شکن پیر کہن سال کی کھال
شمسؔ تبریز نے مردے کو کیا تھا زندہ
شرع نے کھینچی عبث ایسے خوش اعمال کی کھال
کام از بس کہ زمانے کا ہوا ہے برعکس
چور کھنچوائے ہے اس عہد میں کوتوال کی کھال
نفس گرم سے لیتا ہے وہ اکسیر بنا
دھونکنی دم کی ہے شاعر کے زر و مال کی کھال
اتنے بے کار نہیں جانور آبی بھی
دستانوں کے تو کام آتی ہے گھڑیال کی کھال
فکر میں موئے کمر کی ترے حیران رہے
وہی دقاق جو کھینچے ہے سدا بال کی کھال
اتنا مقدور مجھے دیجو تو اے مہدیٔ دیں
مارے کوڑوں کے اڑا دوں خر دجال کی کھال
داغ دل چھن گیا یوں سوزن مژگاں سے تری
جس طرح ہووے مشبک کسی غربال کی کھال
نہیں بے وجہ گرفتاریٔ درویش اس میں
آہو و شیر کی ہوتی ہے عجب حال کی کھال
جس کے ہر دانے سے اک قطرۂ خوں ٹپکے ہے
ہے منڈھی میان پہ قاتل کے عجب حال کی کھال
تن کو پیری میں ریاضت سے دباغی کر دوں
مصحفیؔ چرسے کا چرسا ہے یہ اور کھال کی کھال
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |