مسز ڈی کوسٹا
نو مہینے پورے ہو چکے تھے۔میرے پیٹ میں اب پہلی سی گڑبڑ نہیں تھی۔ پر مسز ڈی کوسٹا کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ وہ بہت پریشان تھی۔ چنانچہ میں آنے والے حادثے کی تمام ان جانی تکلیفیں بھول گئی تھی اور مسز ڈی کوسٹا کی حالت پر رحم کھانے لگی تھی۔
مسز ڈی کوسٹا میری پڑوسن تھی۔ ہمارے فلیٹ کی بالکنی اور اس کے فلیٹ کی بالکنی میں صرف ایک چوبی تختہ حائل تھا۔ جس میں بے شمار ننھے ننھے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں میں سے میں اور اللہ بخشے میری ساس ڈی کوسٹا کے سارے خاندان کو کھانا کھاتے دیکھا کرتے تھے۔ لیکن جب ان کے ہاں سکھائی ہوئی جھینگا مچھلی پکتی اور اس کی ناقابلِ برداشت بو ان سوراخوں سے چھن چھن کر ہم تک پہنچ جاتی تو میں اور میری ساس بالکنی کا رخ نہ کرتے تھے۔ میں اب بھی کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ اتنی بدبودار چیز کھائی کیونکر جاسکتی ہے، پر بابا کیا کہا جائے،انسان بری سے بری چیزیں کھا جاتا ہے۔ کون جانے، انھیں اس ناقابلِ برداشت بو ہی میں لطف آتا ہو۔
مسز ڈی کوسٹا کی عمر چالیس کے لگ بھگ ہوگی۔ اس کے کٹے ہوئے بال جو اپنی سیاہی بالکل کھو چکے تھے اور جن میں بے شمار سفید دھاریاں پڑ چکی تھیں، اس کے چھوٹے سر پر گھسے ہوئے نمدے کی ٹوپی کی صورت میں پریشان رہتے تھے۔ کبھی کبھی جب وہ نیا بھڑکیلے رنگ کا بہت بھونڈے طریقے پر سلا ہوا فراک پہنتی تھی تو سر پر لال لال بندکیوں والا جال بھی لگا لیتی تھی، جس سے اس کے چھدرے بال اس کے سر کے ساتھ چپک جاتے تھے۔ اس حالت میں وہ درزیوں کا ایسا ماڈل دکھائی دیتی تھی جو نیلام گھرمیں پڑا ہو۔
میں نے کئی بار اسے اپنے انہی بالوں میں لہریں پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف دیکھا ہے۔ اپنے چار بیٹوں کو جن میں سے ایک تازہ تازہ فوج میں بھرتی ہوا تھا اور اپنے آپ کو ہندوستان کے حکمرانوں کی فہرست میں شامل سمجھتا تھا۔ اور دوسرا جو ہر روز اپنی کلف لگی سفید پتلون استری کرکے پہنتا تھا اور نیچے آکر چھوٹی چھوٹی کرسچین لڑکیوں کے ساتھ میٹھی میٹھی باتیں کیا کرتا تھا۔۔۔ ناشتہ کرا دیا کرتی تھی اور اپنے بڈھے خاوند کو جو ریلوے میں ملازم تھا، بالکنی میں نکل کر ہاتھ کے اشارے سے ’’بائی بائی‘‘ کرنے کے بعد فارغ ہو جاتی تھی تو اپنے سر کے ناقابلِ گرفت بالوں میں لہریں پیدا کرنے والے کلپ اٹکا دیا کرتی تھی، اور ان کلپوں سمیت سوچا کرتی تھی کہ میرے ہاں بچہ کب پیدا ہوگا۔
وہ خود آدھے درجن بچے پیدا کر چکی تھی جن میں سے پانچ زندہ تھے۔ ان کی پیدائش پر بھی وہ یونہی دن گنا کرتی تھی یا چپ چاپ بیٹھی رہتی تھی اور بچے کو خود بخود پیدا ہونے کے لیے چھوڑ دیتی تھی، اس کے متعلق مجھے کچھ علم نہیں۔ لیکن مجھے اس بات کا تلخ تجربہ ضرور ہے کہ جو کچھ میرے پیٹ میں تھا، اس سے مسز ڈی کوسٹا کو جس کا داہنا پیر اور اس کے اوپر کا حصہ کسی بیماری کے باعث ہمیشہ سوجا رہتا تھا، بہت گہری دلچسپی تھی۔ چنانچہ دن میں کئی مرتبہ بالکنی میں سے جھانک کر وہ مجھے آواز دیا کرتی تھی اور گرائمر سے بے نیاز انگریزی میں، جس کا نہ بولنا اس کے نزدیک شاید ہندوستان کے موجودہ حکمرانوں کی ہتک تھی، مجھ سے کہا کرتی تھی ’’میں بولی، آج تم کدھر گیا تھا۔۔۔‘‘
جب میں اسے بتاتی کہ میں اپنے خاوند کے ساتھ شاپنگ کرنے گئی تھی تو اس کے چہرے پر ناامیدی کے آثار پیدا ہو جاتے اور وہ انگریزی بھول کر بمبئی کی اردو میں گفتگو کرنا شروع کردیتی جس کا مقصد مجھ سے صرف اس بات کا پتا لینا ہوتا تھا کہ میرے خیال کے مطابق بچے کی پیدائش میں کتنے دن باقی رہ گئے ہیں۔
مجھے اس بات کا علم ہوتا تو میں یقیناً اسے بتا دیتی۔ اس میں ہرج ہی کیا تھا۔ اس بیچاری کو خواہ مخواہ کی الجھن سے نجات مل جاتی اور مجھے بھی ہر روز اس کے نت نئے سوالوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ مجھے بچوں کی پیدائش اور اس کے متعلقات کا کچھ علم ہی نہیں تھا۔ مجھے صرف اتنا معلوم تھا کہ نو مہینے پورے ہو جانے پر بچہ پیدا ہو جایا کرتا ہے۔
مسز ڈی کوسٹا کے حساب کے مطابق نو مہینے پورے ہو چکے تھے۔ میری ساس کا خیال تھا کہ ابھی کچھ دن باقی ہیں۔۔۔ لیکن یہ نو مہینے کہاں سے شروع کرکے پورے کردیے گئے تھے، میں نے بہتیرا اپنے ذہن پر زور دیا، پر سمجھ نہ سکی۔
بچہ میرے پیدا ہونے والا تھا۔ شادی میری ہوئی تھی لیکن سارا بہی کھاتہ مسز ڈی کوسٹا کے پاس تھا۔ کئی بار مجھے خیال آیا کہ یہ میری اپنی غفلت کا نتیجہ ہے۔ اگر میں نے کسی چھوٹی سی نوٹ بک میں، چھوٹی سی نوٹ بک میں نہ سہی، اس کاپی ہی میں جو دھوبی کے حساب کے لیے مخصوص تھی، سب تاریخیں لکھ چھوڑی ہوتیں تو کتنا اچھا تھا۔
اتنا تو مجھے یاد تھا اور یاد ہے کہ میری شادی ۲۶ اپریل کو ہوئی یعنی ۲۶ کی رات کو میں اپنے گھر کے بجائے اپنے خاوند کے گھرمیں تھی۔ لیکن اس کے بعد کے واقعات کچھ اس قدر خلط ملط ہوگئے تھے کہ اس بات کا پتا لگانا بہت مشکل تھا اور مجھے تعجب اسی بات کا ہے کہ مسز ڈی کوسٹا نے کیسے اندازہ لگا لیا تھا کہ نو مہینے پورے ہو چکے ہیں اور بچہ لیٹ ہوگیا ہے۔
ایک روز اس نے میری ساس سے اضطراب بھرے لہجے میں کہا، ’’ تمہارے ڈاٹر اِن لا کا بچہ لیٹ ہوگیا ہے۔۔۔ پچھلے ویک (ہفتے) میں پیدا ہونا ہی مانگتا تھا۔‘‘ میں اندر صوفے پر لیٹی تھی اور آنے والے حادثے کے متعلق قیاس آرائیاں کررہی تھی۔ مسز ڈی کوسٹا کی یہ بات سن کر مجھے بڑی ہنسی آئی اور ایسا لگا کہ مسز ڈی کوسٹا اور میری ساس دونوں پلیٹ فارم پر کھڑی ہیں اور جس گاڑی کا انھیں انتظار تھا، لیٹ ہوگئی ہے۔
اللہ بخشے میری ساس کو اتنی شدت کا انتظار نہیں تھا۔ چنانچہ وہ کئی مرتبہ مسز ڈی کوسٹا سے کہہ چکی تھی، ’’کوئی فکر کی بات نہیں، خدا اپنا فضل کرے گا۔ کچھ دن اوپر ہو جایا کرتے ہیں۔‘‘ مگر مسز ڈی کوسٹا نہیں مانتی تھی۔ جو حساب وہ لگا چکی تھی، غلط کیسے ہوسکتا تھا۔جب مسز ڈی سلوا کے ہاں بچہ پیدا ہونے والا تھا تو اس نے دور سے ہی دیکھ کہ کہہ دیا تھا کہ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ لگے گا۔ چنانچہ چوتھے روز ہی مسزڈی سلوا ہسپتال جاتی نظر آئی۔ اور خود اس نے چھ بچے جنے تھے جن میں سے ایک بھی لیٹ نہ ہوا تھا۔ اور پھر وہ نرس تھی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس نے کسی ہسپتال میں دایہ گیری کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ مگر سب لوگ اسے نرس کہتے تھے۔ چنانچہ ان کے فلیٹ کے باہر چھوٹی سی تختی پر ’’نرس ڈی کوسٹا‘‘ لکھا رہتا تھا۔ اسے بچوں کی پیدائش کے اوقات معلوم نہ ہوتے تو اور کس کو ہوتے۔
جب کمرہ نمبر۱۷ کے رہنے والے مسٹر نذیر کی ناک سوج گئی تھی تو مسز ڈی کوسٹا ہی نے بازار سے روئی کا بنڈل منگوایا تھا اور پانی گرم کرکے ٹکور کی تھی۔ بار بار وہ اس واقعے کو سند کے طور پر پیش کیا کرتی تھی۔ چنانچہ مجھے بار بار کہنا پڑتا تھا، ’’ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پڑوس میں ایسی عورت رہتی ہے جو خوش خلق ہونے کے علاوہ اعلیٰ نرس بھی ہے۔‘‘ یہ سن کر وہ خوش ہوتی تھی اور اس کو یوں خوش کرنے سے مجھے یہ فائدہ ہوا تھا کہ جب۔۔۔ صاحب کو تیز بخار چڑھا تھا تو مسز ڈی کوسٹا نے برف لگانے والی ربڑ کی تھیلی فوراً مجھے لا دی تھی۔ یہ تھیلی ایک ہفتہ تک ہمارے یہاں پڑی رہی اور ملیریا کے مختلف شکاروں کے استعمال میں آتی رہی۔ یوں بھی مسز ڈی کوسٹا بڑی خدمت گزار تھی۔ لیکن اس کی اس رضا کاری میں اس کی متجسس طبیعت کو کافی دخل تھا۔ دراصل وہ اپنے تمام پڑوسیوں کے ان رازوں سے بھی واقف ہونے کی آرزومند تھی جو سینہ بہ سینہ چلے آتے ہیں۔
مسز ڈی سلوا چونکہ مسز ڈی کوسٹا کی ہم مذہب تھی، اس لیے اس کی بہت سی کمزوریاں اس کو معلوم تھیں۔ مثلاً وہ جانتی تھی کہ اس کی شادی کرسمس میں ہوئی اور بچہ جولائی میں پیدا ہوا۔ جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ اس کی شادی بہت پہلے ہو چکی تھی۔ اس کو یہ بھی معلوم تھا کہ مسز ڈی سلوا ناچ گھروں میں جاتی ہے اور یوں بہت سا روپیہ کماتی ہے۔ اور یہ کہ وہ اب اتنی خوبصورت نہیں رہی جتنی کہ پہلے تھی چنانچہ اس کی آمدنی بھی پہلے کی نسبت کم ہوگئی ہے۔
ہمارے سامنے جو یہودی رہتے تھے، ان کے متعلق مسز ڈی سلوا کے مختلف بیان تھے۔ کبھی وہ کہتی تھی کہ موٹی موذیل جورات کو دیر سے گھر آتی ہے، سٹہ کھیلتی ہے اور وہ ٹھنگنا سا بڈھا جو اپنی پتلون کے گیلسوں میں انگوٹھے اٹکائے اور کوٹ کاندھے پر رکھے صبح گھر سے نکل جاتا ہے اور شام کو لوٹتا ہے، موذیل کا پرانا دوست ہے۔ اس بڈھے کے متعلق اس نے کھوج لگا کر معلوم کیا تھا کہ صابن بناتا ہے جس میں سجی بہت زیادہ ہوتی ہے۔
ایک دن اس نے ہمیں بتایا کہ موذیل نے اپنی لڑکی کی، جو بہت خوصورت تھی اور ہر روز نیلے رنگ کا ’’جم‘‘ پہن کر اسکول جاتی تھی، اس آدمی سے منگنی کررکھی ہے جو ہر روز ایک پارسی کو موٹر میں لے کر آتا ہے۔ اس پارسی کے متعلق میں اتنا جانتی ہوں کہ اس کی موٹر ہمیشہ نیچے کھڑی رہتی تھی اور وہ موذیل کی لڑکی کے منگیتر سمیت رات وہیں بسر کرتا تھا۔ مسز ڈی کوسٹا کا بیان یہ تھا کہ موذیل کی لڑکی فلوری فلوری کا منگیتر پارسی کا موٹر ڈرائیور ہے اور یہ پارسی اپنے موٹر ڈرائیور کی بہن للی کا عاشق ہے جو اپنی چھوٹی بہن وائلٹ سمیت اسی فلیٹ میں رہتی تھی۔ وائلٹ کے متعلق مسز ڈی کوسٹا کی رائے بہت خراب تھی۔ وہ کہا کرتی تھی کہ یہ لونڈیا جو ہر وقت ایک ننھے سے بچے کو اٹھائے رہتی ہے، بہت برے کیریکٹر کی ہے، اور اس ننھے سے بچے کے متعلق اس نے ایک دن ہمیں یہ خبر سنائی تھی، اور جیسا کہ مشہور کیا گیا ہے، وہ کسی پارسن کا لاوارث بچہ نہیں بلکہ خود وائلٹ کی بہن للّی کا ہے۔ بس مجھے اتنا ہی یاد رہا ہے کیونکہ جو شجرہ مسز ڈی کوسٹا نے تیار کیا تھا اتنا لمبا ہے کہ شاید ہی کسی کو یاد رہ سکے۔
صرف آس پاس کی عورتوں اور پڑوس کے مردوں تک مسز ڈی کوسٹا کی معلومات محدود نہیں تھیں۔ اسے دوسرے محلے کے لوگوں کے متعلق بھی بہت سی باتیں معلوم تھیں۔ چنانچہ جب وہ اپنے سوجے ہوئے پیر کا علاج کرنے کی غرض سے باہر جاتی تو گھرلوٹتے ہوئے دوسرے محلوں کی بہت سی خبریں لاتی تھی۔
ایک روز جب مسز ڈی کوسٹا میرے بچے کی پیدائش کا انتظار کرکر کے تھک ہار چکی تھی، میں نے اسے باہر پھاٹک کے پاس اپنے دو بڑے لڑکوں، ایک لڑکی اور پڑوسن کی دو عورتوں کے ساتھ باتوں میں مصروف دیکھا۔ یہ خیال کرکے جی ہی جی میں بہت کڑھی کہ میرے بچے کے لیٹ ہو جانے کے متعلق باتیں کررہی ہوگی۔ چنانچہ جب اس نے گھر کا رخ کیا تو میں جنگلے سے پرے ہٹ گئی۔ مگر اس نے مجھے دیکھ لیا تھا۔ سیدھی اوپر چلی آئی۔ میں نے دروازہ کھول کر باہر بالکنی ہی میں مونڈھے پر بٹھا دیا۔ مونڈھے پر بیٹھتے ہی اس نے بمبئی کی اردو اور گرائمر سے بے نیاز انگریزی میں کہنا شروع کیا، ’’تم نے کچھ سنا۔۔۔؟ مہاتما گاندھی نے کیا کیا۔۔۔؟ سالی کانگریس ایک نیا قانون پاس کرنا مانگتی ہے۔ میرا فریڈرک خبر لایا ہے کہ بمبئی میں پروہبیشن ہو جائے گی۔۔۔ تم سمجھتا ہے پروہبیشن کیا ہوتی ہے؟‘‘
میں نے لاعلمی کا اظہار کیا کیونکہ جتنی انگریزی مجھے آتی تھی اس میں پروہبیشن کا لفظ نہیں تھا۔ اس پر مسز ڈی کوسٹا نے کہا، ’’پروہبیشن شراب بند کرنے کو کہتے ہیں۔۔۔ ہم پوچھتا ہے۔ اس کانگریس کا ہم نے کیا بگاڑا ہے کہ شراب بند کرکے ہم کو تنگ کرنا مانگٹی ہے۔۔۔ یہ کیسی گورنمنٹ ہے۔ ہم کو ایسی بات ایک دم اچھی نہیں لگٹی۔ ہمارا تہوار کیسے چلے گا۔ ہم کیا کرے گا۔ وسکی ہمارے تہواروں میں ہونا ہی مانگٹا ہے۔۔۔ تم سمجھتی ہونا؟ کرسمس کیسے ہوگا۔۔۔؟ کرسچین لوگ تو اس لاء کو نہیں مانے گا۔ کیسے مان سکتا ہے۔۔۔ میرے گھر میں چوبیس کلاک (گھنٹے) برانڈی کی ضرورت رہتی ہے۔ یہ لاء پاس ہوگیا تو کیسے کام چلے گا۔۔۔ یہ سب کچھ گانڈھی کررہا ہے۔۔۔ گانڈھی جو محمڈن لوگ کا ایک دم بَیری ہے۔۔۔ سالا آپ تو پیتا نہیں اور دوسروں کو پینے سے روکتا ہے اور تمہیں مالوم ہے یہ ہم لوگوں کا میرا مطلب ہے گورنمنٹ کا بہت بڑا اینی می (دشمن) ہے۔۔۔‘‘
اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انگلستان کا سارا ٹاپو مسز ڈی کوسٹا کے اندرسما گیا ہے۔ وہ گوا کی رہنے والی کالے رنگ کی کرسچین عورت تھی۔ مگر جب اس نے یہ باتیں کیں تو میرے تصور نے اس پر سفید چمڑی منڈھ دی۔ چند لمحات کے لیے وہ یورپ سے آئی ہوئی تازہ تازہ انگریز عورت دکھائی دی جسے ہندوستان اور اس کے مہاتما جی سے کوئی واسطہ نہ ہو۔
سمندر کے پانی سے نمک بنانے کی تحریک مہاتما گاندھی نے شروع کی تھی۔ چرخہ چلانا اور کھادی پہننا بھی اسی نے لوگوں کو سکھایا تھا۔ اسی قسم کی اور بہت سی اوٹ پٹانگ باتیں وہ کر چکا تھا۔ شاید اسی لیے مسز ڈی کوسٹا نے یہ سمجھا تھا کہ بمبئی میں شراب صرف اس لیے بند کی جارہی ہے کہ ’’انگریز لوگوں‘‘ کو تکلیف ہو۔۔۔ وہ کانگریس اور مہاتما گاندھی کو ایک ہی چیز سمجھتی تھی۔۔۔ یعنی لنگوٹی۔ مہاتما گاندھی اور اس کی ہشت پشت پر لعنتیں بھیج کر مسز ڈی کوسٹا اصل بات کی طرف متوجہ ہوئی، ’’اور ہاں یہ تمہارا بچہ کیوں پیدا نہیں ہوتا۔ چلو میں تمہیں کسی ڈاکٹر کے پاس لے چلوں۔‘‘ میں نے اس وقت بات ٹال دی مگر مسز ڈی کوسٹا نے گھر جاتے ہوئے پھر مجھ سے کہا، ’’دیکھوتم کو کچھ ایسا ویسا بات ہوگیا۔ تو پھر ہم کو نہ بولنا۔‘‘
اس سے دوسرے روز کا واقعہ ہے۔۔۔ صاحب بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے مجھے خیال آیا۔ کئی دنوں سے میں نے مسز کاظمی کو ٹیلیفون نہیں کیا۔ اس کو بھی بچے کی پیدائش کا بہت خیال ہے۔ اس وقت فرصت ہے، اور نذیر صاحب کا دفتر جو ان کے گھر کے ساتھ ہی ملحق تھا، بالکل خالی ہوگا کیونکہ چھ بج چکے تھے۔ اٹھ کر ٹیلیفون کردینا چاہیے۔ یوں سیڑھیاں اترنے اور چڑھنے سے ڈاکٹر صاحب اور تجربہ کار عورتوں کے مشورہ پر عمل بھی ہوجائے گا، جو یہ تھا کہ چلنے پھرنے سے بچہ آسانی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ میں اپنے پیدا ہونے والے بچے سمیت اٹھی اور آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ جب پہلی منزل پر پہنچی تو مجھے نرس ڈی کوسٹا کا بورڈ نظر آیا اور پیشتر اس کے کہ میں اس کے فلیٹ کے دروازے سے گزر کر دوسری منزل کے پہلے زینے پر قدم رکھوں، مسز ڈی کوسٹا باہر نکل آئی اور مجھے اپنے گھر لے گئی۔
میرا دم پھولا ہوا تھا اور پیٹ میں اینٹھن سی پیدا ہوگئی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ربڑ کی گیند ہے جو کہیں اٹک گئی ہے۔ اس سے بڑی الجھن ہورہی تھی۔ میں نے ایک بار اس تکلیف کا ذکر اپنی ساس سے کیا تھا تو اس نے مجھے بتایا تھا کہ بچے کی ٹانگ وانگ ادھر ادھر پھنس جایا کرتی ہے۔ چنانچہ یہ ٹانگ وانگ ہی ہلنے جلنے سے کہیں پھنس گئی تھی جس کے باعث مجھے بڑی تکلیف ہورہی تھی۔
میں نے مسز ڈی کوسٹا سے کہا، مجھے ایک ضروری ٹیلیفون کرنا ہے اس لیے میں آپ کے یہاں نہیں بیٹھ سکتی۔ اور بہت سے جھوٹے بہانے پیش کیے مگر وہ نہ مانی اور میرا بازو پکڑ کر اس نے زبردستی مجھے اس صوفے پر بٹھا دیا جس کا کپڑا بہت میلا ہورہا تھا۔مجھے صوفے پر بٹھا کر جلدی جلدی اس نے دوسرے کمرے سے اپنے دو چھوٹے لڑکوں کو باہر نکالا۔ اپنی کنواری جوان لڑکی کو بھی جو مہاتما گاندھی کی لنگوٹی سے کچھ بڑی نیکر پہنتی تھی، اس نے باہر بھیج دیا اور مجھے خالی کمرے میں لے گئی۔ اندر سے دروازہ بند کرکے اس نے میری طرف اس افریقی جادوگر کی طرح دیکھا جس نے الٰہ دین کا چچا بن کر اسے غار میں بند کردیا تھا۔
یہ سب کچھ اس نے اس پھرتی سے کیا کہ مجھے وہ بہت پراسرار دکھائی دی۔ سوجے ہوئے پیر کے باعث اس کی چال میں خفیف سا لنگڑا پن پیدا ہوگیا تھا، جو مجھے اس وقت بہت بھیانک دکھائی دیا۔میری طرف گھور کر دیکھنے کے بعد اس نے ادھر دیوار کی تینوں کھڑکیاں بند کیں۔ ہر کھڑکی کی چٹخی چڑھا کر اس نے میری طرف اس انداز سے دیکھا گویا اسے اس بات کا ڈر ہے کہ میں اٹھ بھاگوں گی۔
ایمان کی کہوں، اس وقت میرا یہی جی چاہتا تھا کہ دروازہ کھول کر بھاگ جاؤں۔ اس کی خاموشی اور اس کے کھڑکیاں، دروازے بند کرنے سے میں بہت پریشان ہو گئی تھی۔ آخر اس کا مطلب کیا تھا۔۔۔؟ وہ چاہتی کیا تھی، اتنے زبردست تخلیے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔؟ اور پھر۔۔۔ وہ لاکھ پڑوسن تھی۔ اس کے ہم پر کئی احسان بھی تھے لیکن آخروہ تھی تو ایک غیر عورت اور اس کے بیٹے۔۔۔ وہ موا فوجی، اور وہ کلف لگی پتلون و الا جو چھوٹی چھوٹی کرسچین لڑکیوں سے میٹھی میٹھی باتیں کرتا تھا۔۔۔ اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ پرائے پرائے۔ میں کئی عشقیہ ناولوں میں کٹنیوں کا حال پڑھ چکی تھی۔ جس انداز سے وہ ادھر ادھر چل پھر رہی تھی اور دروازے بند کرکے پردے کھینچ رہی تھی،اس سے میں نے یہی نتیجہ اخذ کیا تھا کہ وہ نرس ورس بالکل نہیں بلکہ بہت بڑی کٹنی ہے۔ کھڑکیاں اور دروازے بند ہونے کے باعث کمرے میں جس کے اندر لوہے کے چار پلنگ پڑے تھے، کافی اندھیرا ہوگیا تھا جس سے مجھے اور بھی وحشت ہوئی۔ مگر اس نے فوراً ہی بٹن دبا کر روشنی کردی۔
سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ میرے ساتھ کیا کرے گی۔ پراسرار طریقے پر اس نے آتش دان سے ایک بوتل اٹھائی جس میں سفید رنگ کا سیّال مادہ تھا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگی، ’’اپنا بلاؤز اتارو۔۔۔ میں کچھ دیکھنا مانگٹی ہوں۔‘‘ میں گھبرا گئی، ’’کیا دیکھنا چاہتی ہو؟‘‘ اوپر سے سب کچھ نظر آرہا تھا، پھر بلاؤز اتروانے کا کیا مطلب تھا۔ اور اسے کیا حق حاصل تھا کہ وہ دوسری عورتوں کو یوں گھر کے اندر بلا کربلاؤز اتروانے پر مجبور کرے۔ میں نے صاف صاف کہہ دیا، ’’مسز ڈی کوسٹا میں بلاؤز ہرگز ہرگز نہیں اتاروں گی۔‘‘ میرے لہجے میں گھبراہٹ کے علاوہ تیزی بھی تھی۔
مسز ڈی کوسٹا کا رنگ زرد پڑ گیا، ’’تو۔۔۔تو۔۔۔ پھر ہم کو مالوم کیسے پڑے گا کہ تمہارے گھر بچہ کب ہوگا۔۔۔اس بوتل میں کھوپرے کا تیل ہے۔ یہ ہم تمہارے پیٹ پر گرا کر دیکھے گا۔۔۔ اس سے ایک دم مالوم ہو جائے گا کہ بچہ کب ہوگا۔۔۔ لڑکی ہوگی یا لڑکا۔‘‘ میری گھبراہٹ دور ہوگئی۔ ڈی کوسٹا پھر مجھے مسز ڈی کوسٹا نظر آنے لگی۔
کھوپرے کا تیل بڑی بے ضرر چیز ہے۔ پیٹ پر اگر اس کی پوری بوتل بھی الٹ دی جاتی تو کیا ہرج تھا، اور پھر ترکیب کتنی دلچسپ تھی۔ اس کے علاوہ اگرمیں نہ مانتی تو مسز ڈی کوسٹا کو کتنی بڑی ناامیدی کا سامنا کرنا پڑتا۔ مجھے ویسے بھی کسی کی دل شکنی منظور نہیں ہوتی۔ چنانچہ میں مان گئی۔۔۔ بلاؤز اور قمیص اتارنے میں مجھے کافی کوفت ہوئی مگر میں نے برداشت کرلی۔غیر عورت کی موجودگی میں جب میں نے اپنا پھولا ہوا پیٹ دیکھا جس کے نچلے حصے پر اس طرح کے لال لال نشان بنے ہوئے تھے، جیسے ریشمی کپڑے میں چُرسیں پڑ جائیں تو مجھے ایک عجیب قسم کا حجاب محسوس ہوا۔ میں نے چاہا کہ فوراً کپڑے پہن لوں اور وہاں سے چل دوں لیکن مسز ڈی کوسٹا کا وہ ہاتھ جس میں کھوپرے کے تیل کی بوتل تھی ،اٹھ چکا تھا۔
میرے پیٹ پر ٹھنڈے ٹھنڈے تیل کی ایک لکیر دوڑ گئی۔ مسز ڈی کوسٹا خوش ہوگئی۔ میں نے جب کپڑے پہن لیے تو اس نے مطمئن لہجہ میں کہا، ’’آج کیا ڈیٹ ہے؟ اگیارہ (گیارہ) بس پندرہ کو بچہ ہو جائے گا اور لڑکا ہوگا۔‘‘
بچہ۲۵ تاریخ کو ہوا لیکن تھا لڑکا۔ اب جب کبھی وہ میرے پیٹ پر اپنے ننھے ننھے ہاتھ رکھتا ہے تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسز ڈی کوسٹا نے کھوپرے کے تیل کی ساری بوتل انڈیل دی ہے۔
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |