مزہ وصال کا کیا گر فراق یار نہ ہو
مزہ وصال کا کیا گر فراق یار نہ ہو
نہیں ہے نشے کی کچھ قدر اگر خمار نہ ہو
نہ روئے تا کوئی عاشق یہ حکم ہے اس کا
کہ شمع بھی مری محفل میں اشک بار نہ ہو
جو ہچکی آئی تو خوش میں ہوا کہ موت آئی
کسی کو یار کا اتنا بھی انتظار نہ ہو
ذقن ہے سیب تو عناب ہے لب شیریں
نہیں ہے سرو وہ خوش قد جو میوہ دار نہ ہو
وہ ہوں میں مورد نفرت کہ درکنار ہے یار
پئے فشار کبھی گور ہم کنار نہ ہو
نہ آئے کنج لحد میں بھی مجھ کو خواب عدم
اگر سرہانے کوئی خشت کوئے یار نہ ہو
برنگ حسن بتاں ہے دل شگفتہ مرا
جو اس چمن میں خزاں ہو تو پھر بہار نہ ہو
گئی ہے کیسی زمانے سے رسم سرگرمی
عجب نہیں ہے جو پتھر میں بھی شرار نہ ہو
نہ ہنسنے سے کبھی ہم راز پوش واقف ہوں
برنگ غنچہ جگر جب تلک فگار نہ ہو
تری مژہ کی جو تشبیہ اس سے ترک کریں
کسی کے تیر سے کوئی کبھی فگار نہ ہو
دم اخیر تو کر لیں نظارہ جی بھر کے
الٰہی خنجر سفاک آب دار نہ ہو
یہی ہے قلزم غم میں مری دعا یا رب
قیام اس میں کوئی بھی حباب دار نہ ہو
وہ صبح سینۂ صد چاک میں ہے داغ جنوں
کہ جس سے دیدۂ خورشید بھی دو چار نہ ہو
ہوس عروج کی لے جائیں گر یہ دنیا سے
کبھی بلند ہوا سے کوئی غبار نہ ہو
کمال صورت بے درد سے تنفر ہے
نہ دیکھیں ہم کبھی اس گل کو جس میں خار نہ ہو
ہزاروں گور کی راتیں ہیں کاٹنی ناسخؔ
ابھی تو روز سیہ میں تو بے قرار نہ ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |