Jump to content

مر کے بھی قامت محبوب کی الفت نہ گئی

From Wikisource
مر کے بھی قامت محبوب کی الفت نہ گئی
by جلالؔ لکھنوی
331109مر کے بھی قامت محبوب کی الفت نہ گئیجلالؔ لکھنوی

مر کے بھی قامت محبوب کی الفت نہ گئی
ہو چکا حشر بھی لیکن یہ قیامت نہ گئی

شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کر لی
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

بوسہ لے کر جو مکرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں
شاعری کا اثر اور جھوٹ کی عادت نہ گئی

داغ مٹتے نہ سنا دل سے تری حسرت کا
آئی جس گھر میں پھر اوس گھر سے یہ دولت نہ گئی

پاس بیٹھے بھی تو کیا جلد اٹھے گھبرا کر
میرا سودا تو گیا آپ کی وحشت نہ گئی

نہ ہوا صاف دل یار کسی طرح جلالؔ
خاک میں مل گئے ہم اس کی کدورت نہ گئی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.