مرے سینے سے تیرا تیر جب اے جنگجو نکلا
Appearance
مرے سینے سے تیرا تیر جب اے جنگجو نکلا
دہان زخم سے خوں ہو کے حرف آرزو نکلا
مرا گھر تیری منزل گاہ ہو ایسے کہاں طالع
خدا جانے کدھر کا چاند آج اے ماہ رو نکلا
پھرا گر آسماں تو شوق میں تیرے ہے سرگرداں
اگر خورشید نکلا تیرا گرم جستجو نکلا
مئے عشرت طلب کرتے تھے ناحق آسماں سے ہم
وہ تھا لبریز غم اس خمکدہ سے جو سبو نکلا
ترے آتے ہی آتے کام آخر ہو گیا میرا
رہی حسرت کہ دم میرا نہ تیرے روبرو نکلا
کہیں تجھ کو نہ پایا گرچہ ہم نے اک جہاں ڈھونڈا
پھر آخر دل ہی میں دیکھا بغل ہی میں سے تو نکلا
خجل اپنے گناہوں سے ہوں میں یاں تک کہ جب رویا
تو جو آنسو مری آنکھوں سے نکلا سرخ رو نکلا
گھسے سب ناخن تدبیر اور ٹوٹی سر سوزن
مگر تھا دل میں جو کانٹا نہ ہرگز وہ کبھو نکلا
اسے عیار پایا یار سمجھے ذوقؔ ہم جس کو
جسے یاں دوست اپنا ہم نے جانا وہ عدو نکلا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |