مری شاکی ہے خود میری فغاں تک
Appearance
مری شاکی ہے خود میری فغاں تک
کہ تالو سے نہیں لگتی زباں تک
کوئی حسرت ہی لے آئے منا کر
مرے روٹھے ہوئے دل کو یہاں تک
جگہ کیا درد کی بھی چھین لے گا
جگر کا داغ پھیلے گا کہاں تک
اثر نالوں میں جو تھا وہ بھی کھویا
بہت پچھتائے جا کر آسماں تک
فلک تیرے جگر کے داغ ہیں ہم
مٹائے جا مٹانا ہے جہاں تک
وہ کیا پہلو میں بیٹھے اٹھ گئے کیا
نہ لیں جلدی میں دو اک چٹکیاں تک
کوئی مانگے تو آ کر منتظر ہے
لیے تھوڑی سی جان اک نیم جاں تک
اٹھانے سے اجل کے میں نہ اٹھتا
وہ آتے تو کبھی مجھ ناتواں تک
جلالؔ نالہ کش چپکا نہ ہوگا
وہ دے کر دیکھ لیں منہ میں زباں تک
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |