مرثیۂ خروس کہ در خانۂ فقیر بود
کئی برس سے ہمارے کنے تھا ایک خروس
خروس عرش کی اولاد سے ولے افسوس
پھرا جو اس سے یکایک زمانۂ کج باز
قضا نے اس کو کیا ایک بار مرغ انداز
دیا کرے وہ اذاں دونوں وقت صبح و شام
بجا ہے مرغ مصلی رکھیں گر اس کا نام
نہیں ہے مرغ چمن میں جہاں کے ایسا آج
بہ رنگ کلۂ تاج خروس سر پر تاج
جو بیٹھے جھانپے میں پرواز پر سے مرغ خیال
کھڑا ہو دھوپ میں تو رشک مرغ زریں بال
کبھو جو صحن میں گھر کے وہ اشرف الطیار
پھرا ہے کیس کو ڈالے تو مرغ آتش خوار
نہ بطخیں ہیں ثناگستری میں اس کی مدام
بزرگ داشت کریں مرغ سبزوار تمام
رہا ہمیشہ سے وہ مرغ مستعد جنگ
طرف نہ اس کے ہوئے بچگی میں قاز و کلنگ
جب ان نے گانٹھ کے اک لات حلق پر ماری
شتردلی کی شترمرغ نے کئی باری
نہ اس کے سامنے کوئی کھڑا رہا مرغا
حواصل اس سے بگڑتا تو تھا وہ کیا مرغا
بجز کنارہ نہ سیمرغ کو بنا چارہ
کہ فیل مرغ کو بکری کی طرح سے مارا
ہمیشہ گربہ و سگ سے تھی روک ٹوک اسے
جہاں سے لے گئی آخر یہ نوک چوک اسے
خصومت اس کی تھی یک مادہ سگ سے شام و سحر
کبھو وہ لات اسے مارتا کبھو شہپر
قضا جو پہنچی تھی نزدیک وہ بھی جھنجھلائی
حریف ہوکے دلیرانہ سامنے آئی
یہ بہبہا تھا نہ سمجھا ادا کو کینے کی
لگائی سامنے ہوتے ہی ایک سینے کی
ہلائی ان نے بھی گردن لگی کہیں بے کل
کہ ایک دم میں گئی آہ اس کی گردن ڈھل
جھکا جو خاک کی جانب کو کیس بے جاں کا
زمیں پہ تاج گرا ہدہد سلیماں کا
ہوا کے مرغ ہوئے داغ اس کے ماتم سے
سیاہ پوش رہے طائر حرم غم سے
وہاں جو نوحۂ مرغان قدس باز ہوا
کہ مرغ قبلہ نما کا بھی دل گداز ہوا
قفس کے مرغ نے سن ترک آب و دانہ کیا
طیور نے بھی نہ پھر قصد آشیانہ کیا
ہوا زبسکہ پراگندہ یہ غم جاں سوز
اداس رہنے لگے سارے مرغ دست آموز
خروس عرش ہی اس بن نہیں ہے سینہ فگار
ہزار مرغ کا اب گھر خروس پر ہے بار
زمانہ جب تئیں ہے اس کے درد کے مارے
رہیں گے خاک فشاں مرغ خانگی سارے
خموش میرؔ تجھی کو نہیں یہ رنج و تعب
کباب آتش غم میں ہیں مرغ و ماہی سب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |