مرثیہ گوپال کرشن گوکھلے
لرز رہا تھا وطن جس خیال کے ڈر سے
وہ آج خون رلاتا ہے دیدۂ تر سے
صدا یہ آتی ہے پھل پھول اور پتھر سے
زمیں پہ تاج گرا قوم ہند کے سر سے
حبیب قوم کا دنیا سے یوں روانہ ہوا
زمیں الٹ گئی کیا منقلب زمانہ ہوا
بڑھی ہوئی تھی نحوست زوال پیہم کی
ترے ظہور سے تقدیر قوم کی چمکی
نگاہ یاس تھی ہندستاں پہ عالم کی
عجیب شے تھی مگر روشنی ترے دم کی
تجھی کو ملک میں روشن دماغ سمجھے تھے
تجھے غریب کے گھر کا چراغ سمجھے تھے
وطن کو تو نے سنوارا کس آب و تاب کے ساتھ
سحر کا نور بڑھے جیسے آفتاب کے ساتھ
چنے رفاہ کے گل حسن انتخاب کے ساتھ
شباب قوم کا چمکا ترے شباب کے ساتھ
جو آج نشو و نما کا نیا زمانہ ہے
یہ انقلاب تری عمر کا فسانہ ہے
رہا مزاج میں سودائے قوم خو ہو کر
وطن کا عشق رہا دل کی آرزو ہو کر
بدن میں جان رہی وقف آبرو ہو کر
رگوں میں جوش محبت رہے لہو ہو ہو کر
خدا کے حکم سے جب آب و گل بنا تیرا
کسی شہید کی مٹی سے دل بنا تیرا
وطن کی جان پہ کیا کیا تباہیاں آئیں
امنڈ امنڈ کے جہالت کی بدلیاں آئیں
چراغ امن بجھانے کو آندھیاں آئیں
دلوں میں آگ لگانے کو بجلیاں آئیں
اس انتشار میں جس نور کا سہارا تھا
افق پہ قوم کے وہ ایک ہی ستارا تھا
حدیث قوم بنی تھی تری زباں کے لیے
زباں ملی تھی محبت کی داستاں کے لیے
خدا نے تجھ کو پیمبر کیا یہاں کے لیے
کہ تیرے ہاتھ میں ناقوس تھا اذاں کے لیے
وطن کی خاک تری بارگاہ اعلیٰ ہے
ہمیں یہی نئی مسجد نیا شوالا ہے
غریب ہند نے تنہا نہیں یہ داغ سہا
وطن سے دور بھی طوفان رنج و غم کا اٹھا
حبیب کیا ہیں حریفوں نے یہ زباں سے کہا
سفیر قوم جگر بند سلطنت نہ رہا
پیام شہ نے دیا رسم تعزیت کے لیے
کہ تو ستون تھا ایوان سلطنت کے لیے
دلوں میں نقش ہیں اب تک تری زباں کے سخن
ہماری راہ میں گویا چراغ ہیں روشن
فقیر تھے جو ترے در کے خادمان وطن
انہیں نصیب کہاں ہوگا اب ترا دامن
ترے الم میں وہ اس طرح جان کھوتے ہیں
کہ جیسے باپ سے چھٹ کر یتیم روتے ہیں
اجل کے دام میں آنا ہے یوں تو عالم کو
مگر یہ دل نہیں تیار تیرے ماتم کو
پہاڑ کہتے ہیں دنیا میں ایسے ہی غم کو
مٹا کے تجھ کو اجل نے مٹا دیا ہم کو
جنازہ ہند کا در سے ترے نکلتا ہے
سہاگ قوم کا تیری چتا میں جلتا ہے
رہے گا رنج زمانہ میں یادگار ترا
وہ کون دل ہے کہ جس میں نہیں مزار ترا
جو کل رقیب تھا ہے آج سوگوار ترا
خدا کے سامنے ہے ملک شرمسار ترا
پلی ہے قوم ترے سایۂ کرم کے تلے
ہمیں نصیب تھی جنت ترے قدم کے تلے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |