Jump to content

مرادیں کوئی پاتا ہے کسی کی جان جاتی ہے

From Wikisource
مرادیں کوئی پاتا ہے کسی کی جان جاتی ہے
by ظہیر دہلوی
299898مرادیں کوئی پاتا ہے کسی کی جان جاتی ہےظہیر دہلوی

مرادیں کوئی پاتا ہے کسی کی جان جاتی ہے
ہزاروں دیکھنے والے تری چتون کے بیٹھے ہیں

عدو عاشق سہی مانا اسی پر منحصر کیا ہے
ابھی تو چاہنے والے بہت بچپن کے بیٹھے ہیں

صبا کیا خاک اڑائے گی عدو کیا قہر ڈھائیں گے
وہ خود پامال کرنے کو مرے مدفن کے بیٹھے ہیں

سراغ نقش پائے غیر شاید اپنا رہبر ہو
سر راہ طلب ہم منتظر رہزن کے بیٹھے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.