مرادیں کوئی پاتا ہے کسی کی جان جاتی ہے
Appearance
مرادیں کوئی پاتا ہے کسی کی جان جاتی ہے
ہزاروں دیکھنے والے تری چتون کے بیٹھے ہیں
عدو عاشق سہی مانا اسی پر منحصر کیا ہے
ابھی تو چاہنے والے بہت بچپن کے بیٹھے ہیں
صبا کیا خاک اڑائے گی عدو کیا قہر ڈھائیں گے
وہ خود پامال کرنے کو مرے مدفن کے بیٹھے ہیں
سراغ نقش پائے غیر شاید اپنا رہبر ہو
سر راہ طلب ہم منتظر رہزن کے بیٹھے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |