مدت ہوئی ہے مدح حسیناں کئے ہوئے
Appearance
مدت ہوئی ہے مدح حسیناں کئے ہوئے
نور سخن سے دل کو چراغاں کئے ہوئے
عرصہ ہوا ہے وصف بہار جمال سے
روئے ورق کو رشک گلستاں کئے ہوئے
برسوں ہوئے ہیں تذکرۂ سوز عشق سے
بزم سخنوری کو درخشاں کئے ہوئے
آتا ہے کس شکوہ سے وہ رشک آفتاب
ظلمت کدے دلوں کے چراغاں کئے ہوئے
جاتا ہوں کوئے یار کو دیکھ اے گھٹا مجھے
برپا ہجوم اشک سے طوفاں کئے ہوئے
بیٹھے ہیں ہم تصور گیسوئے یار میں
اس زندگی کو خواب پریشاں کئے ہوئے
خوں کر کے لے چلا ہوں دل و جاں کو اپنے ساتھ
دیدار روئے یار کا ساماں کئے ہوئے
مر مٹئے اس ادا پہ کہ کچھ لوگ جل بجھے
سینے میں سوز عشق کو پنہاں کئے ہوئے
وہ نو بہار حسن بھی اس راہ سے گیا
ہر نقش پا کو روضۂ رضواں کئے ہوئے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |