Jump to content

محشر کا ہمیں کیا غم عصیاں کسے کہتے ہیں

From Wikisource
محشر کا ہمیں کیا غم عصیاں کسے کہتے ہیں
by وزیر علی صبا لکھنؤی
303381محشر کا ہمیں کیا غم عصیاں کسے کہتے ہیںوزیر علی صبا لکھنؤی

محشر کا ہمیں کیا غم عصیاں کسے کہتے ہیں
پلے پہ وہ بت ہوگا میزاں کسے کہتے ہیں

عشاق پھرے دردر ایواں کسے کہتے ہیں
سر بار رہا تن پر ساماں کسے کہتے ہیں

وصل بت مہرو ہے شرب مئے گلگوں ہے
پھر اور عنایات یزداں کسے کہتے ہیں

قیدی رہے وحشت میں بے خود تھے مگر ایسے
یہ بھی نہ کھلا ہم پر زنداں کسے کہتے ہیں

انسان کا بس نفس امارہ مخرب ہے
لاحول ولا قوت شیطاں کسے کہتے ہیں

مہتاب ترے آگے نکلا تو نجومی کو
ثابت نہ ہوا ماہ تاباں کسے کہتے ہیں

بیمار محبت ہیں مر جائیں تو اچھا ہے
قربان اطبا کے درماں کسے کہتے ہیں

کیوں کر نہ ہنسیں سن کر حال دل عاشق کو
کمسن ہیں وہ کیا جانیں ارماں کسے کہتے ہیں

اے واعظو یہ باتیں اچھی نہیں گنجلک کی
کوئی جو کبھی سمجھے ایماں کسے کہتے ہیں

دیکھیں تو خضر تیرے آب دم خنجر کو
معلوم نہیں آب حیواں کسے کہتے ہیں

ہاں دست جنوں سو سو زنجیر کی ٹکڑے ہوں
سنسی کسے کہتے ہیں سوہاں کسے کہتے ہیں

بے یار یہ بادل ہیں دل شام کی فوجوں کے
بوچھار ہے تیروں کی باراں کسے کہتے ہیں

ہم آپ کے گھر آ کر فرمائیے جائیں گے
اچھی رہی لو سنئے مہماں کسے کہتے ہیں

جب دیکھتے ہیں گل کو کہتے ہیں وہ شوخی سے
روتی ہوئی صورت ہے خنداں کسے کہتے ہیں

بے خود خلش غم سے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں
اے دل یہ کھٹک کیا ہے مژگاں کسے کہتے ہیں

دیوار کو زنداں کی پتھرا گئے دیوانے
جس دم یہ خیال آیا میداں کسے کہتے ہیں

آئینے کے ساتھ اپنی صورت انہیں دکھلائیں
دیکھیں تو وہ دونو میں حیراں کسے کہتے ہیں

شہرہ ہے صباؔ اب تو اپنی بھی فصاحت کا
آتشؔ کے مقلد ہیں سحباں کسے کہتے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.