محبت کی انتہا چاہتا ہوں
Appearance
محبت کی انتہا چاہتا ہوں
انہیں حاصل ابتدا چاہتا ہوں
اسے برملا دیکھنا چاہتا ہوں
ادب اے محبت یہ کیا چاہتا ہوں
غم عشق کا سلسلا چاہتا ہوں
میں تجھ تک ترا واسطا چاہتا ہوں
کرم ہائے نا مستقل کا گلہ کیا
ستم ہائے بے انتہا چاہتا ہوں
وہ گھبرا کے جس پر نظر ڈال ہی دیں
میں وہ قلب شورش ادا چاہتا ہوں
کرم کیجیئے تو کرم کا ہوں طالب
سزا دیجئے تو سزا چاہتا ہوں
تری یاد اچھی طرح ذکر پیارا
مگر میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں
ترے عشق ہی سے بنی میری ہستی
ترے عشق ہی میں مٹا چاہتا ہوں
جو تازہ کرے قصۂ طور باسطؔ
میں ایسا ہی اک واقعہ چاہتا ہوں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |