مجھے یاد ہیں وہ دن جو تری بزم میں گزارے
Appearance
مجھے یاد ہیں وہ دن جو تری بزم میں گزارے
وہ جھکی جھکی نگاہیں وہ دبے دبے اشارے
یہ ترا سکوت رنگیں یہ ادائے بے نیازی
کہیں بجھ کے رہ نہ جائیں مری روح کے شرارے
کبھی شوق زندگی تھا کبھی لطف سر خوشی تھا
مگر اب تو جی رہا ہوں تری یاد کے سہارے
یہ چمن چمن بہاریں یہ رواں دواں ہوائیں
انہیں کیا سمجھ سکیں گے غم زندگی کے مارے
مجھے کیا سکون ملتا مرے اشک کیسے تھمتے
کہ مچل رہے ہیں دل میں ترے غم کے تیز دھارے
کہیں ہے وجود ساحل مجھے کیسے باور آئے
مری کشتی تمنا نہ لگی کبھی کنارے
شب انتظار گزری مری زندگی نہ بدلی
وہی ہوشؔ میرے آنسو وہی ڈوبتے ستارے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |