Jump to content

مجھے چھیڑنے کو ساقی نے دیا جو جام الٹا

From Wikisource
مجھے چھیڑنے کو ساقی نے دیا جو جام الٹا
by انشاء اللہ خان انشا
294594مجھے چھیڑنے کو ساقی نے دیا جو جام الٹاانشاء اللہ خان انشا

مجھے چھیڑنے کو ساقی نے دیا جو جام الٹا
تو کیا بہک کے میں نے اسے اک سلام الٹا

سحر ایک ماش پھینکا مجھے جو دکھا کے ان نے
تو اشارا میں نے تاڑا کہ ہے لفظ شام الٹا

یہ بلا دھواں نشہ ہے مجھے اس گھڑی تو ساقی
کہ نظر پڑے ہے سارا در و صحن و بام الٹا

بڑھوں اس گلی سے کیوں کر کہ وہاں تو میرے دل کو
کوئی کھینچتا ہے ایسا کہ پڑے ہے گام الٹا

در مے کدہ سے آئی مہک ایسی ہی مزے کی
کہ پچھاڑ کھا گرا واں دل تشنہ کام الٹا

نہیں اب جو دیتے بوسہ تو سلام کیوں لیا تھا
مجھے آپ پھیر دیجے وہ مرا سلام الٹا

لگے کہنے آب مائع تجھے ہم کہا کریں گے
کہیں ان کے گھر سے بڑھ کر جو پھرا غلام الٹا

مجھے کیوں نہ مار ڈالے تری زلف الٹ کے کافر
کہ سکھا رکھا ہے تو نے اسے لفظ رام الٹا

نرے سیدھے سادے ہم تو بھلے آدمی ہیں یارو
ہمیں کج جو سمجھے سو خود ولد الحرام الٹا

تو جو باتوں میں رکے گا تو یہ جانوں گا کہ سمجھا
مرے جان و دل کے مالک نے مرا کلام الٹا

فقط اس لفافہ پر ہے کہ خط آشنا کو پہنچے
تو لکھا ہے اس نے انشاؔ یہ ترا ہی نام الٹا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.