Jump to content

مجھے میرے دوستوں سے بچاو

From Wikisource
مجھے میرے دوستوں سے بچاو
by سجاد حیدر یلدرم
277933مجھے میرے دوستوں سے بچاوسجاد حیدر یلدرم

(ایک مضمون نگار کی شکایت احباب سے)

اور کوئی طلب ابنائے زمانہ سے نہیں

مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا

ایک دن میں دلی کے چاندنی چوک میں سے گزر رہا تھا کہ میری نظر ایک فقیر پر پڑی جو بڑے موثر طریقے سے اپنی حالت زار لوگوں سے بیان کرتا جارہا تھا۔ دو تین منٹ کے وقفہ کے بعد یہ درد سے بھری اسپیچ انھیں الفاظ اور اسی پیرایہ میں دہرا دی جاتی تھی۔ یہ طرز کچھ مجھے ایسا خاص معلوم ہوا کہ میں اس شخص کو دیکھنے اور اس کے الفاظ سننے کے لیے ٹھہر گیا۔ اس فقیر کا قد لمبا، جسم خوب موٹا تازہ تھا اور چہرہ ایک حد تک خوبصورت ہوتا، مگر بدمعاشی اور بے حیائی نے صورت مسخ کردی تھی۔ یہ تو اس کی شکل تھی۔ رہی اس کی صدا، تو میں ایسا قسی القلب نہیں ہوں کہ صرف اس کا مختصر سا خلاصہ لکھ دوں۔ وہ اس قابل ہے کہ لفظ بلفظ لکھتی جائے چنانچہ وہ اسپیچ یا صدا جو کچھ کہیے یہ تھی۔

’’اے بھائی مسلمانو! خدا کے لیے مجھ بدنصیب کا حال سنو! میں آفت کا مارا، سات بچوں کا باپ ہوں۔ اب روٹیوں کو محتاج ہوں اور اپنی مصیبت ایک ایک سے کہتا ہوں۔ میں بھیک نہیں مانگتا، میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنے وطن کو چلا جاؤں مگر کوئی خدا کا پیارا مجھے گھر بھی نہیں پہنچاتا۔ بھائی مسلمانو! میں غریب الوطن ہوں، میرا کوئی دوست نہیں۔ ہائے میرا کوئی دوست نہیں۔ اے خدا کے بندو میری سنو، میں غریب الوطن ہوں۔‘‘

فقیر تو یہ کہتا ہوا اور جن پر اس کے قصے کا اثر ہوا ان کی خیرات لیتا ہوا آگے بڑھ گیا لیکن میرے دل میں چند خیالات پیدا ہوئے اور میں نے اپنی حالت کا مقابلہ اس سے کیا اور مجھے خود تعجب ہوا کہ اکثر امور میں میں نے اس کو اپنے سے اچھا پایا۔ یہ صحیح ہے کہ میں کام کرتا ہوں اور وہ مفت خوری سے دن گزارتا ہے۔ نیز یہ کہ میں نے تعلیم پائی ہے وہ جاہل ہے۔ میں اچھے لباس میں رہتا ہوں وہ پھٹے کپڑے پہنتا ہے، بس یہاں تک میں اس سے بہتر ہوں۔ آگے بڑھ کر اس کی حالت مجھ سے بدرجہا اچھی ہے، اس کی صحت پر مجھے رشک کرنا چاہیے، میں رات دن فکر میں گزارتا ہوں اور وہ ایسے اطمینان سے بسر کرتا ہے کہ باوجود بسورنے اور رونے کی صورت بنانے کے اس کے چہرے سے بشاشت نمایاں تھی۔ بڑی دیر تک میں غور کرتا رہا کہ اس کی یہ قابل رشک حالت کس وجہ سے ہے؟ اور آخر کار میں اس بظاہر عجیب نتیجے پر پہنچا کہ جسے وہ مصیبت خیال کرتا ہے وہی اس کے حق میں نعمت ہے وہ حسرت سے کہتا ہے کہ ’’میرا کوئی دوست نہیں‘‘ میں حسرت سے کہتا ہوں، ’’میرے اتنے دوست ہیں۔‘‘ اس کا کوئی دوست نہیں؟ اگر یہ سچ ہے تو اسے مبارکباد دینی چاہیے۔

میں اپنے دل میں یہ باتیں کرتا ہوا، مکان پر آیا۔ کیسا خوش قسمت آدمی ہے، کہتا ہے میرا کوئی دوست نہیں۔ اے خوش نصیب شخص! یہیں تو تو مجھ سے بڑھ گیا، لیکن کیا اس کا یہ قول صحیح بھی ہے؟ یعنی کیا اصل میں اس کا کوئی دوست نہیں جو میرے دوستوں کی طرح اسے دن بھر میں پانچ منٹ کی بھی فرصت نہ دے؟ میں اپنے مکان پر ایک مضمون لکھنے جارہا ہوں مگر خبر نہیں کہ مجھے ذرا سا بھی وقت ایسا ملے گا کہ میں تخلیے میں اپنے خیالات جمع کرسکوں اور انھیں اطمینان سے قلمبند کرسکوں یا جو اسپیچ مجھے کل دیتی ہے اسے سوچ سکوں۔ کیا یہ فقیر دن دھاڑے اپنا روپیہ لے جاسکتا ہے اور اس کا کوئی دوست راستہ میں نہ ملے گا اور یہ نہ کہے گا۔

’’بھائی جان! دیکھو پرانی دوستی کا واسطہ دیتا ہوں، مجھے اس وقت ضرورت ہے، تھوڑا سا روپیہ قرض دو۔‘‘ کیا اس کے احباب، وقت بے وقت اسے دعوتوں اور جلسوں میں کھینچ کر نہیں لے جاتے۔ کیا کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ اسے نیند کے جھونکے آرہے ہوں، مگر یار دوستوں کا مجمع ہے جو قصے پر قصہ اور لطیفے پر لطیفہ کہہ رہے ہیں اور اٹھنے کا نام نہیں لیتے؟ کیا اسے دوستوں کے خطوں کا جواب نہیں دینا پڑتا؟ کیا اس کے پیارے دوست کی تصنیف کی ہوئی کوئی کتاب نہیں جو اسے خواہ مخواہ پڑھنی پڑے اور ریویو لکھنا پڑے؟ کیا اسے احباب کی وجہ سے شور مچانا اور ہو حق کرنا نہیں پڑتا؟ کیا دوستوں کے ہاں ملاقات کو اسے جانا نہیں پڑتا اور اگر نہ جائے تو کوئی شکایت نہیں کرتا؟ اگر ان سب باتوں سے وہ آزاد ہے تو کوئی تعجب نہیں کہ وہ ہٹا کٹا ہے اور میں نحیف و نزار ہوں۔ یا اللہ کیا اس پر بھی وہ شکر ادا نہیں کرتا؟ خدا جانے وہ اور کونسی نعمت چاہتا ہے؟ لوگ کہیں گے کہ اس شخص کے کیسے بیہودہ خیالات ہیں۔ بغیر دوستوں کے زندگی دوبھر ہوتی ہے اور یہ ان سے بھاگتا ہے۔ مگر میں دوستوں کو برا نہیں کہتا۔ میں جانتا ہوں کہ وہ مجھے خوش کرنے کے لیے میرے پاس آتے ہیں اور میرے خیر طلب ہیں، مگر عملی نتیجہ یہ ہے کہ احباب کا ارادہ ہوتا ہے مجھے فائدہ پہنچانے کا اور ہوجاتا ہے مجھے نقصان۔ چاہے مجھ پر نظریں کی جائے مگر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آج تک میرے سامنے کوئی یہ ثابت نہ کرسکا کہ احباب کا ایک جم غفیر رکھنے اور شناسائی کےدائرے کو وسیع کرنے سے کیا فائدہ ہے۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اگر دنیا میں کچھ کام کرنا ہے اور باتوں ہی میں عمر نہیں گزارنی ہے تو بعض نہایت عزیز دوستوں کو چھوڑنا پڑے گا، چاہے اس سے میرے دل پر کیسا ہی صدمہ ہو۔

مثلاً میرے دوست احمد مرزا ہیں، جنہیں میں بھڑ بھڑ یا دوست کہتا ہوں، یہ نہایت معقول آدمی ہیں اور میری ان کی دوستی نہایت پرانی اور بے تکلفی کی ہے مگر حضرت کی خلقت میں یہ داخل ہے کہ دو منٹ نچلا نہیں بیٹھا جاتا۔ جب آئیں گے شور مچاتے ہوئے، چیزوں کو الٹ پلٹ کرتے ہوئے غرض کہ ان کا آنا بھونچال کے آنے سے کم نہیں ہے۔ جب وہ آتے ہیں تو میں کہتا ہوں، ’’کوئی آرہا ہے قیامت نہیں ہے۔‘‘ ان کے آنے کی مجھے دور سے خبر ہوجاتی ہے باوجودیکہ میرے لکھنے پڑھنے کا کمرہ چھت پر ہے اگر میرا نوکر کہتا ہے کہ ’’میاں! اس وقت کام میں بہت مشغول ہیں‘‘ تو وہ فوراً چیخنا شروع کردیتے ہیں کہ کم بخت کو اپنی صحت کا بھی تو کچھ خیال نہیں (نوکر کی طرف مخاطب ہوکر) خیراتی!کب سے کام کررہے ہیں؟ بڑی دیر سے؟ تو بہ توبہ! اچھا بس میں ایک منٹ ان کے پاس بیٹھوں گا مجھے خود جانا ہے۔ چھت پر ہونگے نا؟ میں پہلے ہی سمجھتا تھا۔‘‘

یہ کہتے ہوئے وہ اوپر آتے ہیں اور دروازہ کو اس زور سے کھولتے ہیں کہ گویا کوئی گولہ آکے لگا (آج تک انھوں نے دروازہ کھٹکھٹایا نہیں) اور آندھی کی طرح داخل ہوتے ہیں۔

’’اہا ہا ہا! آخر تمھیں میں نے پکڑ لیا، مگر دیکھو دیکھو میری وجہ سے اپنا لکھنا بند مت کرو، میں حرج کرنے نہیں آیا۔ خدا کی پناہ! کس قدر لکھ ڈالا ہے، کہو طبیعت تو اچھی ہے؟ میں تو صرف یہ پوچھنے آیا تھا واللہ مجھے کس قدر خوشی ہوتی ہے کہ میرے دوستوں میں ایک شخص ایسا ہے جو مضمون نگار کے لقب سے پکارا جاسکتا ہے تو اب جاتا ہوں، میں بیٹھوں گا نہیں۔ ایک منٹ نہیں ٹھہرنے کا، تمھاری خیریت دریافت کرنی تھی، خدا حافظ۔‘‘ یہ کہہ کے وہ نہایت محبت سے مصافحہ کرتے ہیں اور اپنے جوش میں میرے ہاتھ کو اس قدر دبا دیتے ہیں کہ انگلیوں میں درد ہونے لگتا ہے اور میں قلم نہیں پکڑ سکتا۔ یہ تو علیحدہ رہا اپنے ساتھ میرے کل خیالات کو بھی لے جاتے ہیں۔ خیالات کو جمع کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر اب وہ کہاں؟ اور دیکھا جائے تو میرے کمرے میں ایک منٹ سے زیادہ نہیں رہے۔ تاہم وہ اگر گھنٹوں رہتے تو اس سے زیادہ نقصان نہ کرتے۔ کیا میں انھیں چھوڑ سکتا ہوں؟ میں اس سے انکار نہیں کرتا کہ میری اور ان کی دوستی بہت پرانی اور وہ مجھ سے بھائیوں کی طرح محبت کرتے ہیں تاہم میں انھیں چھوڑ دوں گا۔ہاں چھوڑ دوں گا، اگر کلیجے پر پتھر رکھنا پڑے۔

اور لیجیے دوسرے دوست محمد تحسین ہیں۔یہ بال بچوں والے صاحب ہیں اور رات دن انھیں کی فکر میں رہتے ہیں جب کبھی ملنے آتے ہیں تو تیسرے پہر کے قریب آتے ہیں جب میں کام سے تو فارغ ہوچکتا ہوں لیکن اس قدر تھکتا ہوا ہوتا ہوں کہ دل یہی چاہتا ہے کہ ایک گھنٹہ آرام کرسی پر خاموش پڑا رہوں مگر تحسین آئے ہیں اور ان سے ملنا ضروری ہے۔ ان کے پاس باتیں کرنے کے لیے سوائے اپنی بیوی بچوں کی بیماری کے اور کوئی مضمون ہی نہیں۔ میں کتنی ہی کوشش کروں مگر وہ اس مضمون سے باہر نہیں نکلتے۔ اگر میں موسم کا ذکر کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں ہاں بڑا خراب موسم ہے، میرے چھوٹے بچے کو بخار آگیا، منجھلی لڑکی کھانسی میں مبتلا ہے۔ اگر پالی ٹکس یا لٹریچر کے متعلق گفتگو شروع کرتا ہوں تو تحسین صاحب فوراً معذرت پیش کرتے ہیں کہ بھائی آج کل گھر بھر بیمار ہے، مجھے اتنی فرصت کہاں کہ اخبار پڑھوں۔ اگر کسی عام جلسے میں آتے ہیں تو اپنے لڑکوں کو ضرور ساتھ لیے ہوتے ہیں اور ہر ایک سے بار بار پوچھتے رہتے ہیں کہ ’’طبیعت تو نہیں گھبراتی؟ پیاس تو نہیں معلوم ہوتی؟‘‘ کبھی کبھی نبض دیکھ لیتے ہیں اور وہاں بھی کسی سے ملتے ہیں تو گھر کی بیماری ہی کا ذکر کرتے ہیں۔

اسی طرح میرے مقدمہ باز دوست ہیں، جنھیں اپنی ریاست کے جھگڑوں اپنے فریق مخالف کی برائیوں اور جج صاحب کی تعریف یا مذمت کے (تعریف) اس حالت میں جب کہ انھوں نے مقدمہ جیتا ہو اور کوئی مضمون نہیں۔ من جملہ اور بہت سے مختلف قسموں کے دوستوں کے میں محمد شاکر خاں صاحب کا ذکر خصوصیت سے کروں گا کیونکہ وہ مجھ پر خاص عنایت فرماتے ہیں شاکر خاں صاحب موضع سلیم پور کےرئیس اور ضلع بھر میں نہایت معزز آدمی ہیں۔ انھیں اپنی لیاقت کے مطابق لٹریچر کا بہت شوق ہے، لٹریچر پڑھنے کا اتنا نہیں جتنا لٹریری آدمیوں سے ملنے اور تعارف پیدا کرنے کا۔ ان کا خیال ہے کہ اہل علم کی تھوڑی سی قدر کرنا، امرا کے شایان شان ہے ایک مرتبہ میرے ہاں تشریف لائے اور بہت اصرار سے مجھے سلیم پور لے گئے یہ کہہ کے۔

’’شہر میں رات دن شور وشغب رہتا ہے، دیہات میں کچھ عرصہ رہنے سے تبدیل آب و ہوا بھی ہوگی اور وہاں مضمون نگاری بھی زیادہ اطمینان سے کرسکوگے۔ میں نے ایک کمرہ خاص تمھارے واسطے آراستہ کرایا ہے جس میں پڑھنے لکھنے کا سب سامان مہیا ہے۔ تھوڑے دن رہ کے چلے آنا۔ دیکھو! میری خوشی کرو۔‘‘

میں ایسے محبت آمیز اصرار پر انکار کیسے کرسکتا تھا؟ مختصر سا سامان پڑھنے لکھنے کا لے کر میں ان کے ساتھ ہولیا۔ ’’ایڈیٹر معارف‘‘ سے وعدہ کرچکا تھا کہ ایک خاص عرصہ میں ان کی خدمت میں ایک مضمون بھیجوں گا۔ شاکر خاں صاحب کی کوٹھی پر پہنچ کر میں نے وہ کمرہ دیکھا جو میرے لیے تیار کیا گیا تھا۔ یہ کمرہ کوٹھی کی دوسری منزل میں تھا اور نہایت خوبی سے آراستہ تھا۔ اس کی ایک کھڑکی پائیں باغ کی طرف کھلتی تھی اور ایک نہایت ہی دلفریب نیچرل منظر میری آنکھوں کے سامنے ہوتا تھا۔ صبح کو میں نیچے ناشتہ کی غرض سے بلایا گیا، جب دوسرا پیالہ چائے کا پی چکا تو اپنے کمرے جانے کے لیے اٹھا ہی تھا کہ چاروں طرف سے اصرار ہونے لگا کہ ، ’’ہیں! ہیں! کہیں ایسا غضب نہ کرنا کہ آج ہی سے کام شروع کردو۔ اپنے دماغ کو کچھ تو آرام دو اور آج کا دن تو خاص کر اس قابل ہے کہ سینری کا لطف اٹھانے میں گزارا جائے۔ چلیے گاڑی تیار کراتے ہیں، دریا پہ مچھلی کا شکار کھیلیں گے۔ پھر وہاں سے دو میل پر احمد نگر ہے آپ کو وہاں کے رئیس راجہ طالب علی صاحب سے ملائیں گے۔‘‘

میرا ماتھا وہیں ٹھنکا کہ اگر یہی حال رہا تو یہاں بھی فرصت معلوم! خیر سیکڑوں حیلے حوالوں سے اس وقت تو میں بچ گیا اور میرے میزبان بھی میری وجہ سے نہ گئے، مگر مجھے بہت جلد معلوم ہوگیا کہ جس عنقا یعنی یکسوئی کی تلاش میں میں سرگرداں تھا، وہ مجھے یہاں بھی نہ ملے گی۔

میں جلدی سے اٹھ کر اپنےکمرے میں آیا اور اس وقت ذرا غور سے اس میز کے سامان کو دیکھا، جو میرے لکھنے پڑھنے کے لیے تیار کی گئی تھی، میز پر نہایت قیمتی کا مدار کپڑا پڑا ہوا تھا، جس پر سیاہی کا ایک قطرہ گرانا، گناہ کبیرہ سے کم نہ ہوگا، ندی کی دوات، مگر سیاہی دیکھتا ہوں تو سوکھی ہوئی۔ انگریزی قلم نہایت قیمتی اور نایاب مگر اکثر میں نب ندارد۔ جاذب کاغذ ایک مخملی جلد کی کتاب میں مگر لکھنے کے کاغذ کا پتا نہیں۔ اسی طرح بہت سا اعلیٰ درجے کا بیش قیمت سامان میز پر تھا، مگر اکثر اس میں سے میرے کام کا نہیں۔ اور جو چیزیں کہ ضرورت کی تھیں وہ موجود نہیں۔ آخر کار میں نے اپنا وہی پرانا استعمالی، مگر مفید بکس اور اپنی معمولی دوات اور قلم (جس نے اب تک نہایت ایمان داری سے میری مدد کی تھی اور میرے پّراں خیالات کو تیزی کے ساتھ قفس کاغذ میں بند کیا تھا) نکالا اور لکھنا شروع کیا۔ یہ ضرور ہے کہ جن مرغان خوش نوا کی تعریف میں شعرا اس قدر طب اللسان ہیں ان کی عنایت سے میں خوش نہیں ہوا کہ سب کے سب میرے کمرے کے نیچے درخت پر جمع ہوگئے اور شور مچانا شروع کردیا، تاہم میں نے کوشش کرکے ان کی طرف سے کان بند کرلیے اور کام میں ہمہ تن مشغول ہوگیا۔

تن، تنتن، تنتنانا، چھن، تاتن، تن تن تن۔ میں ایسا مصروف تھا کہ دنیا اور مافیہا کی خبر نہ تھی، یکایک اس تن تن نے چونکا دیا، ہیں یہ کیا ہے؟ افوہ! اب میں سمجھا، میرے کمرے کے قریب شاکر خاں صاحب کے چھوٹے بھائی کا کمرہ ہے! انھیں موسیقی میں بہت دخل ہے۔ اس وقت ستار سے شوق فرما رہے ہیں۔ بہت خوب بجارہے ہیں۔

’’اس کی گلی سے آئے کیوں؟

نکہت زلف لائے کیوں؟

مجھ کو صبا سے ہے امید،

اہا مجھ کو صبا سے ہے امید،

مجھ سے صبا کو کیا غرض۔‘‘

واہ وا! سبھان اللہ کیا غزل چھیڑی ہے۔

’’اے ترک سوار نواح عربی یثر ب نگری پہنچا دینا،

کس رنگ میں ہے وہ حبیب مرا، مجھے واکی کھبریا لادینا‘‘

بہت ہی خوب! کمال کرتے ہیں۔

کوئی آدھ گھنٹہ انھوں نے موسیقی کی مشق فرماکر مجھے میری خواہش کے خلاف محظوظ فرمایا۔ پھر کسی وجہ سے وہ اپنے کمرے سے چلے گئے اور خاموشی طاری ہوگئی، تو مجھے پھر اپنے کام کا خیال آیا۔

’’اے میرے خیالات، تمھیں میرا گنجینہ، میرا خزانہ ہو، خدا کے لیے رحم کرو، میرے دماغ میں پھر آجاؤ۔‘‘ یہ کہہ کے میں کاغذ کی طرف متوجہ ہوا کہ دیکھوں کہاں چھوڑا ہے۔ میں اس فقرے تک پہنچا تھا۔

’’ہم اس وسیع اور دقیق مضمون پر جتنا غور و فکر کرتے ہیں اتنا ہی اس مشکلات کا مثل۔۔۔‘‘

مثل کے آگے میں کیا لکھنے والا تھا؟ ’’ریگ دریا کے اندازہ نہیں کرسکتے؟‘‘ ہرگز نہیں۔ ایسا معمولی فقرہ تو نہ تھا، مجھے یقین ہے کہ کچھ اور تھا، کوئی اعلیٰ درجے کی تشبیہ تھی اور فقرے کو نہایت شاندار الفاظ میں ختم کرنے والا تھا، خدا ہی جانتا ہے کہ کیا تھا کیا نہ تھا، اب تو دماغ میں اس کا پتہ بھی نہیں۔ گانے والے صاحب تو شکایت کررہے تھے کہ،

’’اس کی گلی سے آئے کیوں؟ نکہت زلف لائے کیوں؟

مجھ کو صبا سے ہے امید، مجھ سے صبا کو کیا غرض؟‘‘

مگر میرا تو صبا کے نام نے دماغ خالی کردیا، اگروہ آتی اور نکہت زلف بھی لاتی تو نہ معلوم کیا ہوتا۔ بہرحال اب مجھے وہ فقرہ از سرنو درست کرنا چاہیے۔ مشکلات کی بجائے کچھ اور ہونا چاہیے۔

’’ہم اس وسیع مضمون پر جتنا غور و فکر کرتے ہیں، اتنا ہی ان بیش بہا، علمی جواہر کو جو ہمارے ملک اور قوم کے علمی خزانے کے پر کرنے کے لیے کافی ہیں اور جن کی قدر آپ کہاں بھول پڑے اتنے دنوں کہا رہے؟‘‘

’’جن کی قدر آپ کہاں بھول پڑے اتنے دنوں کہا رہے؟‘‘ یہ کیا مہمل فقرہ ہوا! لاحول ولا قوۃ میں بھی کیا گڑ بڑ کررہا ہوں ’’آپ کہاں بھول پڑے اتنے دنوں کہاں رہے۔‘‘ یہ فقرے تو شاکر خاں صاحب نے کسی دوست سے کہے ہیں جو ابھی ان سے ملنے آیا ہے۔ میں مصروفیت میں انھیں ہی لکھ گیا۔

ہاں تو کاٹ کے فقرہ درست کرنا چاہیے۔ ’’اور جن کی قدر ابھی تک ملک و قوم کو معلوم نہیں ہوئی ہے اور بظاہر۔‘‘

کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔

’’کون ہے؟‘‘

’’میں ہوں شبن! سرکار نے کہا ہے کہ اگر آپ کو تکلیف نہ ہو تو نیچے ذرا سی دیر کے لیے تشریف لائے، کوئی صاحب آئے ہوئے ہیں اور سرکار انھیں آپ سے ملانا چاہتے ہیں۔‘‘

بادل ناخواستہ میں اٹھا اور نیچے گیا۔ شاکر صاحب کے دوست راجہ طالب علی صاحب تشریف لائے تھے، ان سے میرا تعارف کرایا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ تشریف لے گئے اور مجھے بھی فرصت ملی اور میں نے یکسو ہوکر لکھنا شروع کیا۔ تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ شبن نے پھر دروازہ کھٹکھٹایا۔ معلوم ہوا کہ میری پھر یاد ہوئی، ہمارے میزبان کے کوئی اور دوست آئے ہوئے ہیں اور میں انھیں دکھایا جاؤں گا، گویا میں بھی مثل اس عربی گھوڑے کے تھا جسے میزبان نے حال ہی میں خریدا تھا اور جو ہر دوست کو اصطبل سے منگا کے دکھایا جاتا تھا۔ ان دوست سے نجات پاکر اور بھاگ کر میں پھر اپنے کمرے میں آیا۔ خیالات غائب ہوگئے تھے، فقرہ از سر نو پھر بنانا پڑا، طبیعت اچاٹ ہوگئی، بہ ہزار دقت پھر بیٹھا اور لکھنا شروع کیا۔ اب کی مرتبہ خوش قسمتی سے کوئی آدھ گھنٹہ ایسا ملا جس میں کوئی آیا گیا نہیں۔ اب میرا قلم تیزی سے چل رہا تھا اور میں لکھ رہا تھا۔

ہم کو کامل یقین ہے کہ ہمارے ملک کے قابل نوجوان جنھیں تفتیش اور تحقیقات کا شوق ہے اور جو کولمبس کی طرح نئی معلومات اور نئی دنیا (گو وہ علمی دنیا ہی کیوں نہ ہو) کے دریافت کرنے کے لیے اپنے تئیں۔‘‘

دروازہ پھر دستک۔

’’کیا ہے؟‘‘

’’اچھا۔‘‘

دریافت کرنے کے لیے ایک خطرے میں ڈالنے سے بھی خوف نہیں کھاتے، ضرور اس طرف متوجہ ہونگے اور اپنی کاوشوں اور کوششوں سے موجودہ۔۔۔‘‘

دروازہ پھر کھٹکھٹایا گیا۔

’’ہاں‘‘

’’حضور! سرکار آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ کھانا ٹھنڈا ہوا جاتا ہے۔‘‘

’’افوہ! مجھے خیال نہیں رہا۔ سرکار سے عرض کرنا میرا انتظار نہ کریں۔ میں پھر کھالوں گا۔ اس وقت مجھے کچھ ایسی بھوک نہیں۔‘‘ ’’اور آیندہ نسلوں کی زیربار احسان کریں گے۔ یہی وہ نوجوان ہیں جو قوم کی کشتی کو، خدا کی مدد پر بھروسہ کرکے خطرات سے بچاتے اور ساحل مراد تک پہنچاتے ہیں۔ زندگی اور موت کالا نیحل مسئلہ۔۔۔‘‘

دستک۔

’’کیا ہے؟‘‘

’’سرکار کہتے ہیں اگر آپ تھوڑی دیر میں کھائیں گے تو ہم بھی اس وقت کھائیں گے، مگر کھانا ٹھنڈا ہوکے بالکل خراب ہوجائے گا۔‘‘

’’اچھا بھائی لو ابھی آیا۔‘‘

یہ کہہ کے میں کھانے کے لیے جاتا ہوں، سب سے معذرت کرتا ہوں، میزبان نہایت اخلاق سے فرماتے ہیں، ’’چہرے پر تھکن معلوم ہوتی ہے۔ کیا بہت لکھ ڈالا، دیکھو میں تم سے کہتا تھا نا کہ شہر میں ایسی فرصت اور خاموشی کہاں؟‘‘

سوائے اس کے کہ آمنا وصد قنا کہوں اور کیا کہہ سکتا تھا؟ اب کھانے پر اصرار ہوتا ہے، جس چیز سے مجھے رغبت نہیں وہی کھلائی جاتی ہے۔ بعد کھانے کے، میزبان صاحب فرماتے ہیں۔

’’سہ پہر کو تمھیں گاڑی میں چلنا ہوگا۔ میں تمھیں اس واسطے یہاں نہیں لایا کہ سخت دماغی کام کرکے اپنی صحت خراب کرلو۔‘‘

واپس کمرے میں آکر میں تھوڑی دیر اس غرض سے لیٹتا ہوں کہ خیالات جمع کرلوں اور پھر لکھنا شروع کردوں۔ مگر اب خیالات کہاں؟ مضمون اٹھاکر دیکھتا ہوں۔ ’’زندگی اور موت کا لانیحل مسئلہ!‘‘ اس کے متعلق کیا لکھنے والا تھا؟ ان الفاظ کے بعد کون سے الفاظ دماغ میں تھے؟ اب کچھ خیال نہیں کہ اس کو پہلے فقروں سے کیوں کر ربط پیدا کرنا تھا۔ یوں ہی پڑے پڑے نیند آجاتی ہے۔ تیسرے پہر اٹھتا ہوں تو دماغ نہایت صحیح پاتا ہوں ’’زندگی اور موت کا لا نیحل مسئلہ‘‘ بالکل حل ہوجاتا ہے۔ پورا فقرہ آئینہ کی طرح صاف نظر آتا ہے۔ میں خوشی خوشی اٹھ کر میز پر گیا اور لکھنا چاہتا تھا کہ پھر وہی دستک!

نوکر اطلاع دیتا ہے کہ گاڑی تیار ہے، سرکار کپڑے پہنے آپ کا انتظار کررہے ہیں، میں فوراً نیچے جاتا ہوں تو پہلا فقرہ جو میزبان صاحب کہتے ہیں یہ ہوتا ہے۔ ’’آج تو دستے کے دستے لکھ ڈالے۔‘‘ میں سچی بات کہوں کہ ’’کچھ بھی نہیں لکھا‘‘ تو وہ ہنس کے جواب دیتے ہیں کہ ’’آخر اس قدر کسر نفسی کی کیا ضرورت ہے؟

خدا کے واسطے جھوٹی نہ کھائیے قسمیں

مجھے یقین ہوا اور مجھ کو اعتبار آیا‘‘

مل ملاکر شام کو واپس آئے، کھانے کے بعد باتیں ہوتی ہیں۔ سونے کے وقت اپنا دن بھر کا کام اٹھاکر دیکھتا ہوں تو ایک صفحے سے زیادہ نہیں، وہ بھی بے ربط و بے سلسلہ۔ غصہ اور رنج میں آکر اسے پھاڑ کر پھینک دیتا ہوں اور دوسرے روز اپنے میزبان کو ناراض کرکے اپنے گھر واپس چلا آتا ہوں۔ میں ناشکرا اور احسان فراموش کہا جاؤں گا، مگر میں مجبور ہوں اس عزیز اور مہربان دوست کو بھی چھوڑ دونگا۔

میں نے ذرا تفصیل سے ان کا حال بیان کیا ہے، مگر یہ خیال نہ کرنا کہ یہیں ان احباب کی فہرست ختم ہوگئی جن سے میں رخصت طلب کرسکتا ہوں۔ نہیں ابھی بہت سے باقی ہیں مثلاً ایک صاحب ہیں جو مجھ سے کبھی نہیں ملتے مگر جب آتے ہیں میں ان کا مطلب سمجھ جاتا ہوں۔ یہ حضرت ہمیشہ قرض مانگنے کے لیے آتے ہیں۔ ایک صاحب ہیں جو ہمیشہ ایسے وقت آتے ہیں جب میں باہر جانے والا ہوتا ہوں۔ ایک صاحب ہیں جب مجھ سے ملتے ہیں کہتے ہیں ’’میاں! عرصہ سے میرا دل چاہتا ہے تمھاری دعوت کروں‘‘ مگر کبھی اپنی خواہش کو پورا نہیں کرتے۔ ایک دوست ہیں وہ آتے ہی سوالات کی بوچھاڑ کردیتے ہیں، جب میں جواب دیتا ہوں تو متوجہ ہوکر نہیں سنتے یا اخبار اٹھاکر پڑھنے لگتے ہیں یا گانے لگتے ہیں۔ ایک صاحب ہیں جو جب آتے ہیں اپنی ہی کہے جاتے ہیں۔ میری نہیں سنتے۔

یہ سب میرے عنایت فرما اور خیر طلب ہیں مگر اپنی طبیعت کو کیا کروں، صاف صاف کہتا ہوں کہ ان میں سے ہر ایک سے کہہ سکتا ہوں۔

’’مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا‘‘

اب چونکہ میں نے یہ حال لکھنا شروع کردیا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند اور احباب کے متعلق اپنے دلی خیالات ظاہر کروں۔ دروازے پر ایک گاڑی آکے رکی ہے، میں سمجھ گیا کہ کون صاحب تشریف لارہے ہیں میں ان کی شکایت نہیں کرنے کا، کیوں کہ کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ تین گھنٹے سے میں یہ مضمون لکھ رہا تھا کہ کسی کرم فرما نے کرم نہیں فرمایا اس لیے اس کے شکریہ میں میں اس مضمون کو اسی نا تمام حالت میں چھوڑتا ہوں اور اپنے دوست کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ یہ دوست میری صحت کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ جب آتے ہیں مجھ پر اس وجہ سے ناراض ہوتے ہیں کہ ’’تم اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے۔‘‘ میں جانتا ہوں کہ اس وقت بھی یہ کسی نئے حکیم یا ڈاکٹر کا حال سنائیں گے جو بڑا حاذوق ہے یا کوئی مجرب نسخہ میرے لیے کسی سے مانگ کر لائے ہونگے۔

’’آئیے آئیے، مزاج علی، بہت دن بعد تشریف لائے‘‘

(ملحض)


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.