Jump to content

مجھے ساقیٔ چشم یار نے عجب ایک جام پلا دیا

From Wikisource
مجھے ساقیٔ چشم یار نے عجب ایک جام پلا دیا (1866)
by شاہ آثم
304442مجھے ساقیٔ چشم یار نے عجب ایک جام پلا دیا1866شاہ آثم

مجھے ساقیٔ چشم یار نے عجب ایک جام پلا دیا
کہ نشہ نے جس کے غم جہاں مرے دل سے صاف بھلا دیا

کروں کیا بیان میں وصف اب مئے ناب عشق کا دوستو
کہ خودی کی قید سے یک قلم بخدا کہ مجھ کو چھڑا دیا

اثر اس کی چشم کرم کا اب کروں کس زبان سے میں بیاں
کہ بہ ہر مکان و بہ ہر طرف مجھے حق کا جلوہ دکھا دیا

کسی آرزو کی رہی نہیں ہے مرے دل میں کچھ بھی سمائے اب
مجھے ساقیا مے لطف سے تو نے کیا ہی خوب چکھا دیا

تری تیغ غمزۂ چشم نے جو ہیں قتل مجھ کو کیا صنم
تو وہیں پہ عیسیٰ ناز نے مجھے ایک دم میں جلا دیا

نہ فقط تمہاری نگاہ نے مرے دل کو ہاتھ سے لے لیا
کہ تمہاری زلف دراز نے مجھے سو بلا میں پھنسا دیا

نہ تھی چشم مجھ کو یہ اے صنم کہ تمہاری چشم نے یک قلم
مرے رخت عقل و شکیب کو برق نگہ سے جلا دیا

مجھے تو نے اپنے جمال کے دکھلا کے طرحیں نو بنو
کبھو مثل ابر رلا دیا کبھو مثل برق ہنسا دیا

میں فدائے خادم شاہ ہوں دل و جان سے آثمؔ جس نے اب
جسے بوجھنا ہی محال تھا اسے ایک پل میں سوجھا دیا


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.