مت بیٹھ وقت نزع تو یاں اے حسیں بہت
Appearance
مت بیٹھ وقت نزع تو یاں اے حسیں بہت
الفت نہ کر تو آہ دم واپسیں بہت
یہ سچ کرے ہے ناز ہر اک نازنیں بہت
عاشق کشی کا چاؤ پہ دیکھا یہیں بہت
ہوتی ہے اس کے دیکھتے حالت مری تغیر
ہر چند میں سنبھالوں ہوں اپنے تئیں بہت
یہ کون جانے جھوٹ ہے یا سچ ولیک آج
اس کم سخن نے پیار کی باتیں تو کیں بہت
عشاق ہی کو غم نہیں معشوق کو بھی ہے
لیکن یہ فرق ہے کہیں تھوڑا کہیں بہت
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |