ماہ نو پردۂ سحاب میں ہے
Appearance
ماہ نو پردۂ سحاب میں ہے
یا کہ ابرو کوئی نقاب میں ہے
رنگت اس رخ کی گل نے پائی ہے
اور پسینے کی بو گلاب میں ہے
آج ساقی شکار کھیلے گا
بط مے کانسۂ شراب میں ہے
طول روز فراق کہتا ہے
حشر کا روز کس حساب میں ہے
شربت قند کی سی شیرینی
دہن یار کے لعاب میں ہے
شان سے کچھ بگڑ گئی شاید
زلف شب رنگ پیچ و تاب میں ہے
ہو سخیؔ کو نہ فکر یا اللہ
عرض اتنی تیری جناب میں ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |