Jump to content

مار ڈالے گی ہمیں یہ خوش بیانی آپ کی

From Wikisource
مار ڈالے گی ہمیں یہ خوش بیانی آپ کی
by رشید لکھنوی
317325مار ڈالے گی ہمیں یہ خوش بیانی آپ کیرشید لکھنوی

مار ڈالے گی ہمیں یہ خوش بیانی آپ کی
موت کا پیغام آئے گا زبانی آپ کی

زندگی کہتے ہیں کس کو موت کس کا نام ہے
مہربانی آپ کی نا مہربانی آپ کی

بعد مردن کھینچ لایا جذب دل سینے پہ ہاتھ
اک انگوٹھی میں جو پہنے تھا نشانی آپ کی

بڑھ چکا قد بھی فروغ حسن کی حد ہو چکی
اب تو قابل دیکھنے کے ہے جوانی آپ کی

آپ سے مل کے گلے راحت سے آ جاتی ہے نیند
سبزۂ خوابیدہ ہے پوشاک دھانی آپ کی

رنگ عالم کا بدلنا آپ کے صدقے میں ہے
جمع کر رکھی تھیں پوشاکیں پرانی آپ کی

آنکھوں پر بندھوائی پٹی تا نہ دیکھوں اور کو
مر گیا میں پر وہی ہے بد گمانی آپ کی

جب وہ مجھ کو دیکھتا ہے ہنس کے کہتا ہے رشیدؔ
کتنی پابند وفا ہے زندگانی آپ کی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.