لے کے اپنی زلف کو وہ پیارے پیارے ہاتھ میں
لے کے اپنی زلف کو وہ پیارے پیارے ہاتھ میں
کہتے ہیں فتنوں کی چوٹی ہے ہمارے ہاتھ میں
ساقیا دونوں جہاں سے پھر تو بیڑا پار ہے
گر بط مے آئے دریا کے کنارے ہاتھ میں
عاشقوں کی آنکھ سے ہر دم برستا ہے لہو
رنگ پر ہے آج کل مہندی تمہارے ہاتھ میں
خوب ہے تیری حمایت پا کے لوٹے نقد دل
اے پری دزد حنائی مال مارے ہاتھ میں
حشر میں ہم سمجھے آیا یار کے خط کا جواب
نامۂ اعمال جب آیا ہمارے ہاتھ میں
جب کبھی دست حنائی سے کترتا ہے وہ شوخ
برق بن جاتے ہیں افشاں کے ستارے ہاتھ میں
منہ چڑھانا بے سبب ہر دم بگڑنا چھوڑ دو
ہو اگر غصے میں آئینہ تمہارے ہاتھ میں
دست ساقی جام جمشیدی سے بڑھ کر ہے مجھے
دونو عالم کے میں کرتا ہوں نظارے ہاتھ میں
وصل ہے اک شہسوار حسن سے شام و سحر
ہے عنان ابلق گردوں ہمارے ہاتھ میں
فکر تھی ان کو کہ کیوں کر کیجیے عاشق کو قتل
آ گئی تیغ ادا و ناز بارے ہاتھ میں
مثل شاخ گل لچکتی ہے کلائی بار بار
گجرے پھولوں کے ہیں یا کنگن تمہارے ہاتھ میں
وائے قسمت دیکھنے پائیں نہ ہم آنکھوں سے بھی
لے کے مشاطہ ترے گیسو سنوارے ہاتھ میں
کہتے ہیں افشاں کے ذرے لے کے پیشانی سے وہ
آسماں سے ہم نے یہ تارے اتارے ہاتھ میں
بند محرم کے وہ کھلواتے ہیں ہم سے بیشتر
آج کل سونے کی چڑیا ہے ہمارے ہاتھ میں
نبض پر مجھ دل جلے کے انگلیاں رکھیں اگر
اے مسیحا آگ لگ جائے گی سارے ہاتھ میں
ہاتھ آنا اب دل گم گشتہ کا ممکن نہیں
چھپ رہا دزد حنا جا کر تمہارے ہاتھ میں
دل مرا مٹھی میں لے کر مجھ سے کہتا ہے وہ شوخ
کیا ہے اے ناظمؔ بتاؤ تو ہمارے ہاتھ میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |