لیکھے کی یاں بہی نہ زر و مال کی کتاب
لیکھے کی یاں بہی نہ زر و مال کی کتاب
ہے اپنے حق میں وا شد دل فال کی کتاب
بلبل کا زیر بال نہ بے جا سمجھ تو ہے
اس کے مطالعے میں پر و بال کی کتاب
مذکور زلف ہے مرے دیواں میں سر بسر
ہر صفحہ اس کا کیوں نہ بنے جال کی کتاب
فرصت ملی تو خامۂ بال تدرو سے
عاشق ترے لکھیں گے تری چال کی کتاب
جز یسفک الدما کی آیہ نہ وہ پڑھے
قرآں ہو گرچہ اس بت قتال کی کتاب
شکل عروس چھٹ نہ خوش آوے مجھے کبھی
رکھ دیں جو میرے سامنے اشکال کی کتاب
دیکھے جو غور سے کوئی دیواں مرے تو ہاں
ہر بیت ہے زمانے کے احوال کی کتاب
شرم گنہ سے آب ہوا گرچہ میں ولے
دھوئی گئی نہ نامۂ اعمال کی کتاب
پایا نہ سعد و نحس سے کوئی ورق تہی
تاروں کی میں نے خوب جو غربال کی کتاب
کس طرح روز حشر وہ ہوویں گے سرخ رو
دیکھا کیے ہیں یاں جو خط و خال کی کتاب
اس دہر میں بلندیٔ اذہان کند سے
میں گرچہ جانتا تھا انہیں فال کی کتاب
ہر جلد مصحفیؔ ترے دیوان کی ولے
نقطوں سے شک کے بن گئی رمال کی کتاب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |