Jump to content

لیس ہو کر جو مرا ترک جفا کار چلے

From Wikisource
لیس ہو کر جو مرا ترک جفا کار چلے (1900)
by حبیب موسوی
324737لیس ہو کر جو مرا ترک جفا کار چلے1900حبیب موسوی

لیس ہو کر جو مرا ترک جفا کار چلے
سیکڑوں خون ہوں ہر گام پہ تلوار چلے

ناتوانی نے انہیں دریا پہ جانے نہ دیا
اٹھ کے سو بار گرے راہ میں سو بار چلے

تیرا کوچہ ہے وہ اے بت کہ ہزاروں زاہد
ڈال کے سبحہ میں یاں رشتۂ زنار چلے

اے شہ حسن مکدر نہ ہو گر تیرا مزاج
خاک اپنی بھی جلو میں پس رہوار چلے

سن کے یہ گرمئ بازار تیری اے یوسف
نقد جاں رکھ کے ہتھیلی پہ خریدار چلے

ہے یقیں حشر میں بھی ایک نیا محشر ہو
اٹھ کے گر کاکل جاناں کے گرفتار چلے

فصل گل آئی اٹھا ابر چلی سرد ہوا
سوئے مے خانہ اکڑتے ہوئے مے خوار چلے

ہوگا احساں پئے گلگشت اگر تو صیاد
ساتھ لے کر قفس مرغ گرفتار چلے

دیر سے بیٹھے تھے مشتاق سخن سب یہ حبیبؔ
دیکھ اٹھتے ہی تیرے بزم سے حضار چلے


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.