Jump to content

لکھنؤ کی ادبی خدمات

From Wikisource
لکھنؤ کی ادبی خدمات
by سید سلیمان ندوی
319579لکھنؤ کی ادبی خدماتسید سلیمان ندوی

لکھنؤ کی خدمات

آج ہم جس تاریخی شہر میں جمع ہیں وہ گو ہمارے پورے ملک کی راجدھانی کبھی نہیں بنا لیکن یہ کہنا بالکل سچ ہے کہ ہمارے علوم وفنون اور شعرو ادب کا مدتوں پایہ تخت رہا ہے اور اب بھی ہے۔ شاہ پیر محمدصاحب جن کا ٹیلہ اورٹیلے پر والی مسجد مشہور ہے، یہاں کے سب سے پہلے عالم ہیں۔ عالمگیر کے عہد میں سہالی سے فرنگی محل کو علم و فنون کاوہ خاندان منتقل ہوا جو صدیوں تک ہمارے علوم و فنون کا محافظ اور شیراز ہند پورب کا دارالعلوم رہا اوراس نئے زمانے میں مسلمانوں کی نئی عربی درس گاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کی یہیں بنیاد پڑی۔ یہاں کا خاندان اجتہاد پورے ملک کے طول وعرض پر تنہا حکمراں ہے۔ دلی کے باغ میں جب خزاں آئی تو یہاں بہار کا دور آیا۔ اس اجڑے باغ کے کتنے مرغ خوش لحن تھے، جنہوں نے اڑ اڑ کر اس چمن کی شاخوں پر بسیرا لیا۔ ہندوستان کی موجودہ بولی پیدا تو سندھ اور پنجاب میں ہوئی، نشو و نما دکن میں پایا، تعلیم وتربیت دلی میں حاصل کی، لیکن تہذیب اور سلیقہ لکھنؤ میں سیکھا۔ اودھ کی راجدھانی جب فیض آباد سے لکھنؤ منتقل ہوئی تو اس کو اور چار چاند لگ گئے۔ میرتقی میرؔ، انشاء اللہ خاں انشاءؔ، جرأت اورمصحفیؔ وغیرہ نے اودھ کا رخ کیا۔ میرانیس کا خاندان دلی سے پہلے ہی آچکا تھا۔ ان بزرگوں کے دم قدم سے بادشاہوں کے دربار، امراء کی ڈیوڑھیاں اور اہل علم کی محفلیں شعر وسخن کے نغموں سے پرشور بن گئیں۔ ناسخ و آتشؔ، وزیرؔ وصباؔ اور ان کے شاگردوں کے شاگردوں نے شعر وادب کے جواہر ریزوں کے ڈھیر لگا دیے۔ شعر وسخن کے چرچوں اور شاعروں کے تفریحی جمگھٹوں کوچھوڑ کر نفس زبان کی ترقی، محاورات کی نزاکت، الفاظ کی تراش خراش اور اصول و قواعد کے وضع وتالیف کا جو اہم کام گزشتہ دوصدیوں میں یہاں انجام پایا، اسی کا اثر ہے کہ اس نے بولی سے بڑھ کر زبان کا درجہ پایا۔ ملک سخن کے دواخیر فرماں روا انیسؔ اور دبیرؔ نے شاعری نہیں کی، بلکہ اپنے نام سے زبان وادب کے سکے ڈھال ڈھال کر اہل ملک میں تقسیم کرتے رہے۔ ناسخؔ نے زبان کی نزاکت ولطافت میں وہ کام کیا جوہر ایک ہوشیار جوہری جواہرات کے نوک پلک نکال کرجلا دینے میں کرتا ہے۔ ان کے شاگرد والاجاہ میراوسط علی رشک نے صحیح وغلط، ثقیل وسبک لفظوں کو اس طرح پرکھ کر الگ کردیا کہ ان کی پسند فصاحت کا معیار بن گئی۔ سیکڑوں الفاظ جو بول چال میں رائج تھے، مگر شعروانشاء کی بارگاہ میں ان کو بار حاصل نہ تھا، ان کوخود اپنے شعروں میں نظم کرکے پچھلوں کے لئے سند پیدا کی۔ لکھنؤ میں غالباً یہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے ۱۲۵۶ھ ۱۸۴۸ء میں اردولغت ترتیب دیا، جس کا نام ’’نفس اللغۃ‘‘ہے۔ سیدانشاء اللہ خاں کے دریائے لطافت کا دھارا بھی یہیں بڑھا۔ شیخ امداد علی بحر المتوفی ۱۳۰۰ھ ۱۸۸۲ء کی نسبت بھی مشہور ہے کہ انہوں نے کوئی لغت لکھا تھا، مگراس کا سراغ نہیں ملتا۔ حکیم ضامن علی جلال جن کے دیدار کا شرف مجھے بھی حاصل ہے، ان شعراء میں ہیں جنہوں نے زبان کو نہ صرف شاعری بلکہ وضع اصول اور تحقیقات کے لحاظ سے بھی مالا مال کیا ہے۔ سرمایہ زبان اردو، مفید الشعراء، تنقیح اللغات، گلشن فیض اور قواعد المنتخب وغیرہ ان کی وہ کتابیں ہیں جو اردو زبان کا سرمایہ ہیں۔ منشی امیر احمدمینائی کے شاعرانہ خدمات سے قطع نظر، امیر اللغات کے مصنف کی حیثیت سے ہماری زبان پر ان کا بڑا احسان ہے کہ اردو کے اس عظیم الشان لغت کے دوحصے الف ممدودہ اور الف مقصورہ تک چھپ سکے۔ ان کے جلیل القدر شاگرد نواب فصاحت جنگ جلیل سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ رام پور میں اس لغت کا پورامسودہ موجود ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو ہماری زبان کی بڑی بدقسمتی ہوگی کہ ترقی کے اس روز بازار میں بھی مشتاقوں کی آنکھیں اس عروس فن کی دید سے محروم ہیں۔ لکھنؤ نے شعر وسخن کے ذریعہ سے اس زبان کی جو خدمتیں انجام دی ہیں، وہ ہماری علمی محفلوں کی بار بار کی دہرائی ہوئی کہانیاں ہیں اور جوشہرت کی بنا پر زبان زد خاص و عام ہیں۔ مجھے اس شاہراہ سے ہٹ کر لکھنؤ کی وہ خدمتیں گنانا ہیں جن کو اس دور کے قدرداں بھول گئے ہیں یا ہماری زبان کی تاریخ سے یہ اوراق گر کر کھو گئے ہیں۔ عہد جدید کی تابانی لکھنؤ کے افق میںہمارے ملک میں سات سمندرپار سے آکر جب اہل یورپ نے اپنے نئے علوم و فنون کی نمائش کی ہے تویہ لکھنؤ کا وہ وقت تھا جب وہ عیش و مسرت کی شراب سے بدمست تھے، اس وقت کس کو ہوش تھا کہ وہ دساور کی نئی چیزوں کی قدر کرے اور بزرگوں کی چھوڑی ہوئی کمائی اوراپنے گھر کی اندوختہ دولت میں، جس پر ان کوبڑا غرور تھا، باہر سے خرید کر کچھ اور قیمتی سامانوں کا اضافہ کرے، تاہم اس میخانہ میں کچھ اہل ہوش بھی تھے۔ انہوں نے نئے اورپرانے کا جائزہ لیا اور جوچیز ان کے یہاں نہ تھی وہ فرنگستان کی دکان سے خرید کر لائے۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ خاص حالات نے سرکار اودھ اور سرکار کمپنی کومتحد کر دیا تھا۔ اس کا اثر یہ تھا کہ انگریزی ریزیڈنٹ اور ان کا عملہ لکھنؤ میں اور سرکار اودھ کا وکیل کلکتہ میں اورکبھی کبھی لندن میں رہتا تھا۔ اس میل جول سے دو عظیم الشان مشرقی اورمغربی تمدنوں کا سب سے پہلے یہیں پیوند لگا، اس زمانے کے ریزیڈنٹ اور انگریز حکام اردو و فارسی میں پوری مہارت رکھتے تھے۔ نواب سعادت علی خاں کے دربار میں صاحب ریزیڈنٹ اور انشاء اللہ خاں کی ادبی نوک جھونک کی حکایتیں آب حیات کے ذریعہ مشہور عام ہیں۔ سرکار اودھ کی طرف سے وکالت اورانشاء کے منصب پر جو لوگ سرفراز ہوتے تھے، وہ عموماً اہل علم کے طبقہ سے ہوتے تھے۔ انگریزوں کے میل جول سے وہ بھی انگریزی علوم و فنون سے آشنا ہوجاتے تھے اور بعض بعض تو کسی نہ کسی جدید علم میں مہارت پیدا کر لیتے تھے۔ خان علامہ تفضل خاں انہیں لوگوں میں سے تھے۔ وہ گو رہنے والے سیالکوٹ کے تھے اور ریاضیات اور متوسطات کی تعلیم دلی میں پائی لیکن انتہائی تعلیم لکھنؤ میں ملا حسن فرنگی محلی سے حاصل کی۔ پہلے نواب سعادت علی خاں کے اتالیق مقرر ہوئے۔ پھر نواب آصف الدولہ نے انشاء کو اپنا وکیل بناکر کلکتہ بھیجا۔ اس اثنا میں انہوں نے انگریزی اور لاطینی زبانیں سیکھیں اور جدید ریاضیات و ہیئت کو حاصل کیا، نواب سعادت علی خاں کے زمانہ میں درس و تدریس اور تالیف کا مشغلہ جاری کیا اورجدید علم ہیئت اور جبر ومقابلہ میں کئی کتابیں تصنیف کیں۔ ۱۲۱۵ھ ۱۸۰۰ء میں وفات پائی۔ نواب محمدعلی خان کے زمانہ میں منشی الملک فخرالدولہ، دبیر الملک ہشیار جنگ رتن سنگھ زخمی نے علوم و فنون کی نئی بساط بچھائی۔ گو ان کے بزرگوں کا وطن بریلی تھا، مگران کے فضل و کمال کی بہار لکھنؤ میں آئی۔ بادشاہ کے میر منشی تھے۔ قدیم علوم کے ساتھ جدید ہیئت اور ریاضیات میں بھی ماہر تھے۔ انگریزی سیکھی تھی، حدائق النجوم ان کی مشہور تصنیف ہے۔ ۱۲۵۳ھ ۱۸۳۸ء میں تالیف پائی۔ نئے علم کلام کے لئے نئی اصطلاحوں کا وضع کرنا ان کا خاص کارنامہ ہے۔ کہتے ہیں، ’’باید دانست کہ چوں ایرادوالفاظ یونانی و برطانیقی (انگریزی) بعینہ درکتاب فارسی وعربی مکروہ و غیرمانوس است وکتب عرب یکسر بہ مذہب بطلیموس کہ فیمانحن فیہ اگرچہ بعضے بآنست لیکن بسیارے مخالف ازاں وبرخے مجدد کو نشانے ازاں در تصانیف قدماء پیدانیست۔ ناچار بوضع واضع از اصطلاحات جدیدہ یا تصرفے درتعریضات و جزاں چنانچہ عادت ترجمان قدیم ہنگام نقل علوم از یونانی بعربی بودہ است من ہم اقتضائے ایشاں کردہ می گویم (ص ۹) ان ہی لوگوں میں ایک اور قابل ذکر ہستی رائے منولال فلسفی کی ہے۔ ان کا وطن سندیلہ تھا، فلسفہ و حکمت کے علوم میں دسترس رکھتے تھے۔ نواب آصف الدولہ کے دربار میں نوکر تھے۔ دوسری تصانیف کے ساتھ علم حساب و جغرافیہ و ہیئت اور حکمت انگریزی میں رسائل یادگار چھوڑے۔ ۱۲۴۸ھ ۱۸۲۲ء میں وفات پائی۔ سرکار اودھ کی طرف سے جو علماء وقتاً فوقتاً لندن بھیجے گئے، ان میں سے دونام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ مولوی محمداسماعیل لندنی اور مولوی محمد حسین لندنی۔ ان دونوں نے یورپ کے جدید علوم و فنون سے اس ملک کو آشنا کیا۔ مولوی محمداسماعیل لندنی مرادآباد کے رہنے والے تھے۔ نواب نصیرالدین حیدر کی طرف سے سفیرلندن مقرر ہوئے تھے۔ منطق کی بعض پرانی کتابوں پر ان کے حاشیے ہیں۔ ۱۲۵۳ھ ۱۸۳۷ء میں وفات پائی۔

مولوی محمد حسین کا ایک عربی رسالہ ندوہ کے کتب خانہ میں ہے، جس میں یورپ کے نئے علوم و فنون، جارج سیل کے ترجمہ قرآن اور یورپ کے بعض اختراعات کا تذکرہ ہے۔ نواب نصیرالدین حیدر کے زمانہ میں ان دو کے علاوہ اور صاحب قابل تذکرہ ہیں۔ مولوی عبدالرب اور مولوی کمال الدین حیدر، لکھنؤ میں جو یورپین علماء رہتے تھے ان سے برابر کی ان کی ملاقاتیں رہتی تھیں۔ اس کا نتیجہ وہ رصد خانہ ہے جو ۱۲۴۷ھ ۱۸۳۱ء میں شاہ نصیرالدین حیدر کے زمانہ میں جنرل مکلاوڑ کی کوٹھی میں بننا شروع ہوا اور محمدعلی شاہ کے زمانے میں بن کر تیار ہوا۔ اس رصد خانہ میں کرنل ولکاکس وغیرہ علماء کے علاوہ مولوی عبدالرب صاحب، مولوی کمال الدین حیدر صاحب اورمولوی اسماعیل صاحب مرادآبادی شریک تھے۔ اور اب یہ وہ مقام ہے جس میں امپیریل بینک کی عمارت قائم ہے۔ اب تک ملک میں جدید علوم و فنون کی اشاعت کی تاریخ میں لکھنؤ کا نام نہیں لیا جاتا۔ حالانکہ شاہان اودھ کے زمانے میں لکھنؤ میں بھی ایک دارالترجمہ قائم تھا۔ نئے علوم وفنون کی کتابیں یہاں ترجمہ ہوکر طبع سلطانی سے شائع ہوتی تھیں۔ اس محکمہ کی طرف سے انیس رسالے چھپ کر شائع ہوئے تھے، جس میں دس رسالوں کے نام ہمیں معلوم ہیں۔ ان کی تفصیل میں نے معارف ۱۹۱۷ء میں کی ہے۔ یہ ہیئت، کیمیا، مناظر اور طبیعات اور اس کے اقسام قوت مقناطیسی، علم الماء، علم الہواء، علم الحرارت وغیرہ سائنس کے مختلف علوم پر ہیں۔ لارڈ بردم کا اردوترجمہ مقاصد العلوم کے نام سے محمدعلی شاہ کے زمانے میں چھپا اور بھوپال کے دفتر صیغہ تاریخ میں میری نظر سے گزرا ہے۔ لکھنؤ کی اس علمی وتعلیمی مجلس کا نام اسکول بک سوسائٹی تھا اوراس کی ایک جنرل کمیٹی تھی جو کتابوں کے ترجمہ واشاعت کا کام کرتی تھی اور رصد خانۂ سلطانی کا انگریز مہتمم ان ترجموں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ ایک انگریز نے اردو فن زراعت پر کتاب لکھی تھی۔ ضرورت ہے کہ لکھنؤ کی اس اسکول بک سوسائٹی کے مطبوعات کا پتہ چلایا جائے اورآئندہ دلی سوسائٹی اور فورٹ ولیم کالج کے ساتھ اس کا نام بھی لیا جائے۔ اسی عہد کی ایک کتاب اردو حساب میں لوگارتم ہے جس کا ایک نسخہ ہمارے پاس ہے۔ لکھنؤ کی اولیاتلکھنؤ نے اس کے بعد زبان کی جو خدمتیں انجام دی ہیں، افسوس ہے کہ ان کی کوئی مفصل تاریخ موجود نہیں۔ بادشاہوں کے زمانے میں داستان گوئی کا ایک مفصل فن تھا اور بڑے بڑے زبان داں اور زبان آور بادشاہوں اور امیروں کے شبستانوں میں بیٹھ کر اپنی دلچسپ داستانوں سے بادشاہوں اور امیروں کے دل بہلایا کرتے تھے۔ حکیم ضامن علی جلال کے والد بزرگوار حکیم اصغر علی اس فن کے ماہر تھے۔ اخیر زمانے میں اس فن پر کتابیں بھی لکھی جانے لگیں۔ اس وقت کہانیوں کے کردار دیو، پریاں اور جادوگر اور طلسم ساز ہوتے تھے۔ داستان امیرحمزہ، نوشیرواں نامہ، طلسم ہوش ربا، ابرج نامہ وغیرہ مختلف نا موں سے ہزاروں صفحات میں خیالی ادب اور زور بیان کا ایک طلسم کھڑا کیا گیا۔ اس کتابی طلسم کا فتاح ہمارے ملک کا کوئی دوسرا شہر پیش نہیں کرسکتا۔ ان کتابوں کے مصنف جن کو خدا جانے کس مصلحت سے مترجم کا درجہ دیا جاتا ہے، امیر محمد حسین جاہ، منشی احمدحسین قمر، شیخ تصدق حسین اور توتارام شایان وغیرہ ہیں۔ یہ نظم ونثر کے ہزاروں صفحات حق یہ ہے کہ ہماری پرانی زبان کا بہترین نمونہ ہیں۔ نثر میں سرور کا فسانہ عجائب اورنظم میں نواب مرزا شوقؔ اور دیاشنکر نسیمؔ وغیرہ کی مثنویاں وہ جواہرپارے ہیں جن سے کبھی ادب اردو کی الماریاں سجائی جاتی تھیں۔ امانت کا اندرسبھا مدتوں تک اہل شوق کا تماشا گا ہ رہا ہے، اوراب یہ بات پوری تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے کہ یہ صرف شاعرانہ فسانہ نہ تھا، بلکہ واقعی لکھنؤ میں اندر کا یہ اکھاڑا لگتا تھا اوراس کا تماشا پردوں کے ساتھ کھیل کر دکھایا جاتا تھا اوراس طرح اردو میں ان جدید تماشوں اورناٹکوں کی تمدنی بدعت بھی یہیں پیدا ہوئی۔ میں نے ہندوستانی ادب کی اس صنف کی یہ تمہیدی تاریخ اس لئے بیان کی ہے تاکہ معلوم ہو کہ قدیم وجدید سے مل کر ہماری زبان میں ناولوں کی پیدائش کے لئے لکھنؤ ہی کی زمین کیوں موزوں ہوئی۔ جوشرؔ روسرشارؔ، مرزا رسواؔ، سجادحسین، مرزا مچھوبیگ اور جوالاپرشاد برقؔ کی تخلیق کا باعث ہوئی۔ شرر نے قومی تاریخ اور اصلاح معاشرت کے بعض موضوعات کو اور سرشار نے لکھنؤ کے آخری تمدن کے رسم ورواج اورطریق کو اور مرزا رسوا نے لکھنؤ کے ایک خاص طبقہ کے خصوصیات کو اس خوبی سے بیان کیا ہے کہ یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ انیسویں صدی کا اخیر عہد ان ہی کے دم قدم سے پر رونق رہا تھا۔ لکھنؤ کے اس ادبی دور میں سرشار کی سیر کہسار اور فسانہ آزاد، شرر کی فردوس بریں اور مرزا رسوا کی امراؤ جان ادا اور سجاد حسین کی حاجی بغلول ادب اردو کی بہترین کتابیں ہیں۔ مطبعے، آج کل ادبیات کے سلسلہ تاریخ کی ایک کڑی مطبعے بھی ہیں۔ لکھنؤ میں مطبع سلطانی کے علاوہ مطبع محمدیہ (۲۵۵ھ بعہد محمدعلی شاہ) محمدیعقوب مطبع علوی علی بخش خاں (۱۲۶۳ھ) مطبع مصطفائی، محمدمصطفی خاں (۱۲۷۱ھ) کانپور، مطبع محمدی محمد حسین لکھنوی (۱۲۶۲ھ) مطبع جعفریہ، حکیم مرزا جعفرخاں (۱۲۶۵ھ) مطبع امینی محمدعباس، مطبع صدیقی عنایت اللہ وغیرہ بہت سے مطابع تھے اوراایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب مطبعے مطبع سلطانی، سلطان المطابع کے قانوناً زیر نگرانی تھے۔ لوح پر اس کے مہتمم کپتان مقبول احمد احسان الملک، مرزا محمدمہدی، علی خاں بہادر قبول ثابت جنگ کا نام باقاعدہ لکھا جاتاتھا۔ یہ نام اس عہد کی مطبوعہ کتابوں پر اثر لکھا ہوا ملتا ہے۔ مطبع مصطفائی اپنی صحت اور صفائی میں معیار کے بلند درجے پر تھا۔ علماء اور طلبہ اس کی چھپی ہوئی کتابوں کے قدرداں تھے اوراب بھی اس کی چھپی ہوئی کتابیں اہل شوق میں اشرفیوں کے مول خریدی جاتی ہیں۔ سب سے آخر لکھنؤ کے اس مطبع کا نام لیا جاتا ہے جس کی زندگی اب اسی برس کے قریب پہنچ گئی ہے۔ اس سے میری مراد نول کشور کا مشہور نول کشورپریس ہے۔ یہ غدر کے بعد ۱۸۵۸ء میں قائم ہوا۔ اور بلامبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ مشرقی علوم وفنون کی جتنی ضخیم اور کثیر کتابیں اس مطبع نے شائع کیں، ان کا مقابلہ ہندوستان کیا مشرق کا کوئی مطبع نہیں کر سکتا۔ ہماری زبان کی اکثر علمی وادبی کتابیں اس مطبع سے چھپ کر نکلیں۔ شعراء کے دوادین، مثنویاں، قصائد، مرثیے، افسانے، داستانیں اور درس کی عام کتابیں سب اسی کی کوششوں کی ممنون ہیں، تاہم غلط نویسی اور غفلت جو کثرت کا نتیجہ ہے اس کی شہرت کے چہرے کا بد نما داغ ہے۔ شعرائے قدیم میرؔ، سوداؔ، ناسخؔ، آتشؔ، جرأتؔ، مصفحیؔ، انشاءؔ، رندؔ، دبیرؔ، صباؔ میرمونسؔ، امیرؔ اور اسیرؔ وغیرہ کے دیوان اور کلاموں کے مجموعے اسی مطبع سے نکل کر دنیا کا اجالا ہوئے اورملک کے گوشہ گوشہ میں زبان کی اشاعت کا سبب بنے۔ مطبع تیغ بہادر بھی صدی کے وسط میں ادب کی اشاعت کا اچھا ذریعہ تھا۔ اخباراتزبان کی اشاعت کا تیسرا ذریعہ اخبارات ہیں۔ ہمارا یہ شہر اس سلسلہ میں پیچھے نہ رہا۔ یہ نہیں معلوم کہ یہاں کا پہلا اردواخبار کون ہے، تاہم یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس صوبہ میں اردوکا پہلا روزانہ اخبار ’’اودھ اخبار‘‘ یہیں سے نکلا اور جوآج تک نکل رہا ہے۔ اس کے آغاز کی تاریخ ۱۸۵۸ء ہے اور یہ بے مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ اس اخبار نے اس ملک کے مشہور ادیبوں کے پیدا کرنے اور ان کے پروان چڑھانے میں بہت بڑا حصہ لیا ہے۔ سرشارؔ اور شررؔ دونوں اسی اخبار کے ذریعہ شہرت کے اسٹیج پر آئے۔ اردوکا سب سے پہلا کامیاب مذاقیہ اخبار اودھ پنج بھی اسی شہر کے افق پر نمودار ہوا۔ سید سجاد حسین جن کی ملاقات کی عزت مجھے حاصل ہے، اس کے ایڈیٹر تھے۔ یہ وہ اخبار ہے جس کے صفحات میں منشی احمدعلی کسمنڈوی، منشی احمد علی شوق، میر اکبرحسین اورسید محمدآزاد وغیرہ ہماری زبان کے وہ پرانے ادیب جونئے طور طریق سے آگاہ تھے، روشناس ہوئے۔ سنجیدہ اخباروں میں مشیرقیصر (مرتبہ مولوی غلام محمد خاں تپش ۱۸۳۱ء) اور آئینہ اور آزاد ہفتہ وار اخبار بھی گزشتہ صدی کے ادیبوں کی پیداوار میں معین ہوئے۔ آزادآخر میں اودھ پنج کا ضمیمہ ہو گیا تھا۔ یہ میری طالب علمی کا زمانہ تھا۔ سجاد حسین مرحوم بے کار ہو چکے تھے۔ اس وقت آزاد کی چند ماہ، شکمی ایڈیٹری کا فرض چند دوستوں کے ساتھ مل کر میں نے بھی ادا کیا تھا۔ اردو کے سب سے پہلے آزاد سیاسی اخبار ’ہندوستان‘ نے بھی اسی شہر میں جنم لیا۔ گنگاپرشاد رما اس کے ایڈیٹر تھے۔ یہ اپنے زمانے میں کانگریس کے خیالات کا بہترین وکیل تھا۔ مولانا شبلی مرحوم جو خود بھی کانگریسی خیال کے تھے، اس کو بہت شوق سے پڑھا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اخبار یہ ہے۔ آج تومسلمانوں میں بہت سے آزادسیاسی اخبار ہیں لیکن زمیندار کے بعد ۱۹۱۰ء میں اس صوبہ کا سب سے پہلا آزاد مسلمان سیاسی اخبار مسلم گزٹ بھی یہیں سے نکلا جس کے ایڈیٹر مرحوم وحیدالدین سلیم اور اس کے مشیر خاص اورمضمون نگار مولانا شبلی تھے۔ رسالےرسائل کے لحاظ سے بھی یہ شہر پیچھے نہیں رہا۔ میرے موجودہ معلومات کے لحاظ سے یہاں کا سب سے پہلا رسالہ رسالہ محشر ہے جو مولوی عبدالحلیم شرر کا پہلا ادبی کارنامہ تھا۔ یہ ۱۸۸۲ء میں نکل کر دوسال کے بعد بند ہو گیا تھا۔ ۱۸۸۶ء میں شرر نے اپنا مشہور ادبی رسالہ دلگداز نکالا جواپنے زمانہ میں جدید طریق تحریر کا بہترین معیار تھا۔ یہی وہ رسالہ ہے جس نے ملک میں اردوکے بے شمار ادیب اور نثار پیدا کئے۔ نثرنویسی کا سلیقہ سب سے پہلے شرر ہی کی تحریروں سے ہمارے نوجوانوں میں پیدا ہوا۔ لکھنؤ کا ایک اورادبی رسالہ ذکر کے قابل ہے۔ منشی نثارحسین کا پیام یار۔ یہ گلدستہ ایک زمانہ میں شوق کے ہاتھوں سے لیا اور عزت کی آنکھوں سے پڑھا جاتا تھا۔ اس میں اس عہد کے بڑے بڑے شعراء، امیرؔ، داغؔ، جلیلؔ اور تسلیمؔ وغیرہ اوران کے باکمال شاگردوں کی غزلیں چھپتی تھیں۔ یہ انیسویں صدی کے اواسط میں حسن وعشق کا تنہا پیام بر تھا۔ جس کی باتوں کو سن کر خدا جانے کتنوں کو عروس سخن کا شیدائی بننا پڑا، اور صحیح زبان کے سیکھنے اور لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ اس عہد کا ایک اورادبی رسالہ مرقع عالم ہے جوحکیم محمدعلی خاں کی ایڈیٹری میں ہردوئی سے نکلتا تھا۔ اس کو دلگداز کا حریف سمجھنا چاہئے۔ حکیم صاحب ناول نویسی میں بھی اپنے وقت میں شہرت رکھتے تھے اوران کا قلم وقت کا سماں اور سبزی دکھانے میں خاص ملکہ رکھتا تھا۔ اوپر کے صفحوں پر جوکچھ کہا گیا ہے کہ وہ اس شہر کی انفرادی کوششوں کا ذکر تھا جنہوں نے اصل زبان کو ملک میں مقبول اور ہردلعزیز بنا دیا لیکن اب جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے، انفرادی کوششوں کے بجائے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اب ہر چیز اسی پانی سے نشو و نما پا رہی ہے اور بڑھ رہی ہے۔ اسی لئے زبان کی ترقی میں بھی اب شخصی کوششوں کے بجائے قوم کی یکجائی کوششوں کی ضرورت ہے۔ میں چاہتا تھا کہ ذراتفصیل سے کام کا نقشہ پیش کروں، مگر وقت کی کمی کا خیال کرکے اختصار کے ساتھ اپنا مدعا عرض کرتا ہوں۔ (۱) ہم کو اپنا لٹریچر اس لئے ناچیز معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک ہمارے سامنے ہماری پچھلی کوششوں کے ثمر ے ایک جگہ نہیں ہیں، اس لئے ایک وسیع کتب خانہ کا قیام نہایت ضروری ہے۔ اس غرض کے لئے میں یہ تحریر کرتا ہوں کہ ہندوستانی اکیڈمی اگرپورے ہندوستان میں نہیں تو یوپی گورنمنٹ کا ایک جز ہونے کی حیثیت سے آئندہ اسمبلی میں یہ تجویز پیش کرائے کہ برٹش میوزیم لائبریری کے اصول کے مطابق صوبہ یوپی کا ہر مطبع ہر کتاب کا ایک ایک نسخہ اس کے کتب خانے کے لئے کلکٹر ضلع کے دفتر میں پیش کرے۔ (۲) ہم کو ہندوستانی زبان کی ترقی کے لئے اس پرانے خیال کو دل سے نکال دینا چاہئے کہ یہ زبان فارسی یا سنسکرت سے نکلی ہوئی ہے یا وہ کسی بھاشا کا ضمیمہ ہے بلکہ وہ خود ایک مستقل زبان ہے جس کے الفاظ خود اسی کے ہیں اور جس کے قواعد خود اس کے ہیں۔ یہ نکتہ ذہن میں نہ رہنے کے سبب سے ہم میں سے بعض صاحبوں کو یہ دھوکا ہے کہ وہ ہندوستانی لفظوں کی صحت اور غلطی کی پہچان عربی، فارسی یا ہندی یا سنسکرت سے کرتے ہیں۔ اس اکیڈمی کے ایک لائق صدر کو ہندوستانی میں موت اور روح وغیرہ لفظوں کو مونث ماننے میں اس لئے شک ہے کہ اصل سنسکرت میں وہ مؤنث نہیں۔ اسی طرح میں نے ایک دفعہ عربی اثر کی ہندوستانی جمع اثرات استعمال کی توالہ آباد کے میرے ایک لائق اور پرانے اہل قلم دوست نے اس لئے مجھ کو ٹوکا کہ عربی میں اس کی جمع اثرات نہیں بلکہ آثار ہے۔ حالانکہ ہماری زبان میں لفظ اثر کی یہ دونوں جمعیں دومعنوں میں آتی ہیں۔ عربی میں آثار کے کچھ ہی معنی ہوں مگر ہندوستانی میں اس کے معنی قرینے کے ہیں۔ آثاریہ ہیں، آثاریہ معلوم ہوتے ہیں اوراثرات کا لفظ نتیجے کے معنی رکھتا ہے، اس لئے ہمیں ہندوستانی زبان کومستقل زبان مان کر اس کی خودمختاری کا اعلان کر دینا چاہئے۔ اسی طرح لفظ اصل کو دیکھئے جس کے معنی عربی میں جڑ کے ہیں۔ اس کی جمع عربی میں اصول ہے مگر اردو میں اصول ایک مفرد لفظ کی طرح قاعدے کے معنی میں بولا جاتا ہے اور اس کی جمع اصولوں بنائی جاتی ہے، خود قاعدے کے عربی معنی بنیاد کے ہیں۔ اس کی جمع قواعد ہماری زبان میں دو معنوں میں آتی ہے جب اس کو جمع بولیں تواصول کے معنی میں مذکر، اورجب مفرد بولیں تو فوجی قواعد کے معنی میں وہ مفرد ہے اور مؤنث۔ مواد کا لفظ ماد کی جمع ہے۔ مادہ کے لغوی معنی ہیں پھیلنے والی چیز اور اصطلاحی معنی میٹر، لیکن اب مواد کا لفظ ہماری زبان میں مفرد ہے اور زخم کی آلائش کے معنوں میں ہے اورمیٹر کے معنوں میں اور کسی مضمون کے ضروری معلومات اور مسالے کے لئے بھی وہ بولا جاتا ہے۔ خود مسالے کی اصلیت عربی میں مصالح ہے اور وہ مصلح کی جمع ہے۔ یعنی وہ چیزیں جو کسی کھانے کی اصلاح کے لئے اس میں ملائی جائیں مگراب وہ ہماری زبان میں مسالا لکھا جاتا ہے۔ (م س ا ل ا) اور لکھا جانا چاہئے اور اب وہ کھانے کے مسالے کے ساتھ ہر مضمون کا مسالا بن گیا ہے۔ عربی کا مشعل ہماری زبان میں مشال بن گیا ہے۔ ایسی ہی مثالیں ہندی سے بھی دی جا سکتی ہیں۔ آخری مثالوں میں یہ بات بھی ہمارے بزرگ کچھ کچھ قبول کر چکے ہیں کہ عربی میں کسی لفظ کی اصلیت کچھ ہو اور اس کا املا بھی کچھ ہو مگر ہماری زبان کے استعمال میں اگر اس کا تلفظ اور املا بدل گیا ہے تو وہی غلط تلفظ ہماری زبان میں صحیح ہوگا جیسے ہم مصالحہ کو مسالا اور مشعل کو مثال لکھتے ہیں اور بولنے لگے ہیں بلکہ صحیح کو بھی ہم نے سہی کر لیا ہے، ذرہ ذرا اور طیار تیار اور خراط خراد ہو گیا ہے تو کیا اس قسم کی کمی بیشی ہم دوسرے لفظوں میں نہیں کرسکتے۔ فارسی والوں نے عربی کے مصدروں کے آخر میں سے ت نکال دیا ہے۔ مثلاً مدارات سے مدارا، محابات سے محابا، یا تماشی کو تماشا، تجلی کو تجلا یا اسم فاعل کے آخرسے ی کو گرا دیا۔ مثلاً محاذی کو محاذ کر دیا اور اب ہم بھی محاذ بولتے ہیں۔ اسی طرح کوئی وجہ نہیں کہ ہم ہندوستانی ان میں تصرفات نہ کریں جیسے جن مصدروں یا لفظوں کے آخر میں ع ہو۔ ہم ہندوستانی لہجے میں ان کو نہیں بولتے، اگران کو لکھنے میں گرا دیا جائے تو کیا برا ہے۔ جیسے اطلاع کو اطلا، اجتماع کو اجتما، اتباع کو اتبا، نزاع کو نزا، انتزاع کو انتزا، مطلع کو مطلے اور متبع کو متبے وغیرہ۔ (۴) دلی اور لکھنؤ کے استادوں نے ہمارے لئے ایک اورمثال متروکات کی چھوڑی ہے، یعنی بہت سے لفظوں کو ثقیل یا نامانوس سمجھ کر چھوڑ دیا، یا ٹکسال باہر کردیا ہے جیسے تلک، تئیں، دکھلانا اور جتلانا وغیرہ۔ کوئی وجہ نہیں کہ آج بھی ہم اس اصول سے کام نہ لیں۔ نمط کا لفظ مانند اور طرح کے معنوں میں پہلے بولتے تھے مگراب نہیں بولتے۔ اس لئے عربی، فارسی اورسنسکرت کے ان موٹے موٹے لفظوں کو جن کے کام میں لانے کی ضرورت سرے سے نہیں اور وہ اسی لئے بولے یا لکھے گئے کہ ان سے ان کے لکھنے اور بولنے والے کی لیاقت ظاہر ہو ان کو اپنی ڈکشنری سے الگ کردیں اور ان کو ٹکسال باہر سمجھیں۔ (۵) ان موٹے نامانوس لفظوں کے استعمال کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی ہے کہ بڑے بڑے اہل علم اور خصوصاً یورپ کے فاضل بہت سے معنوں اور چیزوں کے ٹھیٹ ہندوستانی لفظوں سے واقف نہ تھے یا نہیں ہیں، وہ ان کی جگہ پر عربی وفارسی کے لفظ جیسے تقاطر امطار، اوائل ریعاں بدو شور بول کر اپنی ناواقفیت پر پردہ ڈالتے ہیں اوراب بھی ڈالتے ہیں۔ اسی لئے یہ ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ ایسا لغت لکھا جائے جس میں عربی و فارسی کے مشکل لفظوں کے مرادف ٹھیٹ ہندوستانی لفظ ہوں۔ اس کام کو لکھنؤ اور دہلی کے اہل زبان بہتر کرسکتے ہیں اورپھر وہ لفظ پورے ملک میں پھیل سکتے ہیں۔ (۶) اس قسم کا لغت نئی اصطلاحوں کے بنانے میں بھی کام آسکتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ چھاپے کا کام بالکل نیا ہے، اس کے سارے پرزے اور کام کی چیزیں سب نئی ہیں، مگرچونکہ یہ فن پڑھے لکھے اور ارباب لغت کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ ان پڑھ جاہلوں کے ہاتھوں میں رہا ہے اس لئے انہوں نے اس کے لئے کسی اکیڈمی کی طرف رجوع کئے بغیر سارے لفظ اور اصطلاحیں بنا لیں جو سب کے سب ہندوستانی ہیں یا ہندوستانی کر لی گئی ہیں۔ جس کاغذ پر لکھا گیا وہ کاپی، اس کی غلطیاں دیکھی گئیں توتصحیح، ان غلطیوں کو کاتب نے درست کرلیا تو ترمیم، اس کی نقل پتھر پر سے اتار لی گئی تو پروف، دوسری طرف اتارا گیا تو مطابق، تیسری دفعہ دکھایا تو سطابق، چوتھی دفعہ دکھایا گیا تو چطابق، پتھر سے حروف اڑ گئے تو چھن گئے، کاپی کو گرم پتھر پر رکھ دیا توکاپی کو جمایا، کاپی کے حروف بگڑ گئے توکچل گئے، غرض اسی طرح ان اَن پڑھوں نے اپنی ساری ضرورتیں پوری کرلیں اور اصلاح بنانے والوں کے ہاتھ انہیں دیکھتے رہے۔ (۷) ہمارے ہندی کے دوستوں کو شکایت ہے کہ ہم ہندی کے لفظ قصداً چھوڑتے ہیں، حالانکہ یہ بات نہیں ہے، زبان کا سارا دارومدار لفظوں کے چلن پر ہے۔ ہندو مسلمان آپس میں جتنا ملیں گے اتنے ہی فارسی اور ہندی کے لفظ گھلیں اور ملیں گے۔ چنانچہ جب ہمارے بزرگ آپس میں خوب گھلے ملے تھے، دیکھئے کہ سیکڑوں ہندی کے لفظ مسلمانوں کی زبان پر اور سیکڑوں عربی فارسی کے لفظ ہندو منشیوں کے قلم پر چڑھ گئے۔ ولی کے زمانے کی زبان دیکھئے، اس میں آج سے کتنے زیادہ ہندی لفظ ہماری زبان میں تھے۔ آج تو ہندوستانی میں فارسی عربی لفظوں کی ملاوٹ کے گنہگار مسلمان ہیں۔ مگر ہندو مسلمان دونوں سے الگ سات سمندر پار کے ایک بے لاگ کی گواہی سنئے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے ۱۹۲۹ء کے ایڈیشن میں ہے، اردو کا یوں شدید طورپر فارسیت آمیز ہوجانا ایرانی اثر سے زیادہ ہندی اثر سے تھا، اگرچہ اپنی اصل کے اعتبار سے اسلامی تھا تاہم اس میں فارسی عنصر کوکثرت سے داخل کرنے والے ان ایرانی یا ایرانی نژاد لوگوں سے زیادہ ہندو عمال تھے جوحکومت مغلیہ میں ملازم اور فارسی داں تھے۔ کیونکہ وہ (ایرانی اورمغل) صدیوں سے اپنے علم وادب کے لئے صرف اپنی ہی فارسی زبان استعمال کرتے آئے تھے۔ (ص، ۵۷۰ ج۱۱) لیکن یہ بھی اسی لئے ہوا کہ فارسی تعلیم یافتہ ہندو عمال بکثرت مسلمان افسروں سے ملتے جلتے تھے تو ان کے لفظ ان کی زبانوں پر چڑھ جاتے تھے۔ اسی طرح جو مسلمان صوفی درویش اور عام لوگ بلکہ بادشاہ تک جوکثرت سے ہندوؤں سے ملتے تھے، ان کی زبانوں پر ہندی الفاظ بڑی آسانی سے چڑھ گئے تھے۔ آئین اکبری اور فارسی کی دوسری مغل تاریخوں اور صوفیوں کے دکھنی اور گجراتی ہندوستانی کلام میں اس کی جھلک معلوم ہوتی ہے۔ آج سے صدیوں پہلے خواجہ صدرالدین من مہنگ میں کہتے ہیں، اک روپ تھے کیوں ہوئے بہروپہر روپ میں دیکھ انوپ کے روپجگ ہے تو یہ جگ دستا ہے ساراجگ نہیں تو سکل جگت اندھیاراجس جگ میں گیان کی اچھی جوتاس جگ کو سمجھئے کہ ہے وہ لایموتمیں مثال کے طورپر کہتا ہوں کہ ۱۹۱۹ء سے ۱۹۲۵ء تک ہندو مسلمان مل کر ایک سیاسی تحریک میں شریک تھے۔ ہر جگہ وہ مل کر ہر مجمع میں جس میں ہندو مسلمان دونوں ہوتے تھے، تقریریں کرتے تھے۔ اس موقع پر اپنی تقریر کا اثربڑھانے اور مجمع کو اچھی طرح سمجھانے کے لئے دونوں قوموں کے باتونی ایڑی چوٹی کا زور لگاتے تھے کہ ان کی ہر بات دونوں سمجھ جائیں۔ اب ہندو مجبورہوتے تھے کہ ترک موالات بولیں اورمسلمان مجبورہتے تھے کہ اَسہ یوگ کہیں۔ چنانچہ اس زمانہ میں سوراج، نراج، سامراج، آندولن، پرستاؤ، چناؤ، راج نیتک، سبھاپتی، کرپا، شانتی، سماج اور پریم کے لفظ بے تکلف بڑے بڑے جبہ و دستار والے بولنے لگے تھے۔ ایسے ہی ہندو دوست عربی وفارسی کے سیاسی لفظ بے اختیار استعمال کرنے لگے تھے۔ (۸) اسی لئے میری یہ تجویز ہے کہ ایسے آسان ہندی لفظوں کا ایک لغت فارسی خط میں لکھا جائے۔ اس کے ہم معنی ہندوستانی لفظ بتائے جائیں تاکہ وہ آسانی سے ہندوستانی میں شامل ہو سکیں۔ (۹) ہم کو ہندو دوستوں سے یہ بھی کہنا ہے کہ وہ بھی ہندی کے بڑے بڑے لفظ بولنے سے بچیں۔ مجھ کو ہندو دوستوں کے ساتھ کبھی کبھی ان کے جلسوں میں جانا پڑا ہے اور بعض بعض ایسے اناڑیوں کی تقریریں سنی ہیں جن کا ایک لفظ بھی میری سمجھ میں نہیں آیا ہے اور اس پر مزہ یہ ہے کہ اس تجویز کی تائید بھی میرے ذمہ تھی۔ ہندو یونیورسٹی کے ایک ریسرچ اسکالر اپنے مضمون کی ضرورت سے میرے پاس اکثر آتے رہے، لیکن انگریزی کا سہارا نہ ہوتا تو میں نہ ان کی سمجھ سکتا تھا اورنہ وہ میری۔ کیا مجھ کو اوران کو کوئی ایک دیس کا رہنے والا سمجھ سکتا ہے۔ ہندی جس طرح سنسکرت سے کٹ چھنٹ کر بنی ہے اسی ہندی سے کٹ چھنٹ کر ہندوستانی بنی ہے۔ اب ہمارے ہندو دوستوں کی یہ کوشش کہ پھر ہندی لفظ کواسی روپ میں بولیں جس میں وہ ٹھیٹ ہندی میں بولا گیا ہے، ایک طرح کا ظلم ہے۔ میں ایک مثال دیتا ہوں۔ لیکن کے معنی پرنتو، ایک ہندی لفظ ہے۔ وہ اردو میں کٹ چھنٹ کر پر ہوگیا۔ اب اسی جگہ پرنتو بول کر بے پر کی اڑانی کہاں تک درست ہے۔ ہر کلام میں اور کی ضرورت کتنی دفعہ ہوتی ہے۔ اور ہندی کالفظ ہے جس کو اردو نے قبول کرلیا ہے مگر اس لئے کہ یہ اردو میں چل گیا ہے۔ اس کو چھوڑ کر تتھا بولنا کہاں تک صحیح ہے۔ باقی ہندی کا لفظ ہے اور فارسی والے اتنے پرانے زمانے سے اس سے مانوس ہیں کہ سنائی ۵۴۵ء اور سعدی تک نے اپنی زبانیں اسی پانی سے سیراب کی ہیں مگر اب لفظی چھوت کے ڈر سے پانی کا لفظ بھی آپ چھوڑ دیں اور جل پینے لگیں تو یہ کتنی بے گانگی ہے۔ (۱۰) ہماری پرانی اردومیں جب وہ دکھنی یا گوجری ہندی کہلاتی تھی، ہندی کے سیکڑوں پیارے اور میٹھے لفظ تھے جن کو اردو کے چلن سے بعض نفاست پسندوں نے نکال دیا جیسے موہن، موہ، سجن، بچن، پریم، داس، ریت، بس، روگ، پریت، درپن، جگت، بروہ، ٹک، مکھ، پی، چھب، پیا، لٹک (ادا)، سنسار، دیا، چرن، ادھک (بہت)، ندھڑک (بے دھڑک)، نگر، اپاس، میا (مروت)، نپٹ، درس (دیدار)، پریت وغیرہ ان لفظوں کو دوبارہ کام میں لانا چاہئے۔ (۱۱) اس سلسلے میں سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ لفظوں کے لینے اور نکالنے میں عربی وفارسی و سنسکرت و ہندی کی ڈکشنریوں کو کسوٹی بنانا اوران میں سے دیکھ دیکھ کر لفظوں کو چننا اور کلام میں لانا ہماری مشترکہ ہندوستانی زبان کے حق میں زہر ہے۔ اس کی سچی کسوٹی رواج اور چلن ہے۔ آج جو لفظ عربی فارسی، ترکی، ہندی، مرہٹی، گجراتی، پرتگالی اورانگریزی کے عام طور سے برتے جارہے ہیں وہ ٹھیٹ ہندوستانی لفظ ہیں، ان کو اسی تلفظ کے ساتھ بولنا چاہئے جس کے ساتھ وہ بولے جاتے ہیں۔ ہمارے نامور شاعر غالب نے نمبرکو لمبر باندھا، مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے ترا لمبر سہرا۔ اس سے محاورہ بنا لمبر لے جانا، لمبر چھیننا، لمبر لگانا۔ رپورٹ انگریزی لفظ ہے۔ تھانے والوں کی زبان میں یہ رپٹ ہو گیا اوراس کے خاص معنی ہو گئے۔ یہاں تک کہ لسان العصر اکبرؔ نے کہا، حریفوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کر یہ تھانے میں کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں دوسرے انگریزی لفظوں میں بھی اسی قسم کا تصرف کیا گیا ہے اور وہی صحیح ہے۔ عربی، فارسی لفظوں کا بھی یہی حال ہے بلکہ خود عربی و فارسی زبانوں کا قاعدہ بھی یہی ہے جس کو تعریب یا تفریس کہتے ہیں۔ اسی اصول پر سنسکرت اورہندی کے لفظ بھی جس شکل میں ہندوستانی میں آ گئے ہیں ان کو پھر سنسکرت اور ہندی کے اصلی روپ میں بولنے اور لکھنے کی کوشش بنی بنائی زبان کو بگاڑنا ہے اور یہ کرنا ہے کہ دوسری قومیں ان کی بات کو نہ سمجھ سکیں۔ آس کو آشا، برہمن کو برہمنڑ اور گن کو گنٹر کہنا ادبی باپ ہے۔ عربی میں لفظ شہوت خواہش کے معنی میں ہے، جوکھانے پینے، مطالعہ کتاب ہر ایک کے ساتھ بولا جاتا ہے، مگر ہماری ہندوستانی میں ایک خاص معنی میں بولا جاتا ہے، اوراس سے اشتہا بنایا گیا ہے جو کھانے کی رغبت کوکہتے ہیں۔ یہ بھی اس معنی میں عربی نہیں مگریہ دونوں ہماری ہندوستانی کے لفظ ہیں اور صحیح ہیں۔ عربی میں مشکور اس کو کہتے ہیں جس کا شکریہ ادا کیا جائے مگر ہماری زبان میں اس کوکہتے ہیں جوکسی کا شکریہ ادا کرے۔ اسی لئے مشکور کی جگہ بعض عربی کی قابلیت جتانے والے اس کو غلط سمجھ کر صحیح لفظ شکر یا متشکر بولنا چاہتے ہیں مگران کی یہ اصلاح شکریہ کے ساتھ واپس کرنی چاہئے۔ خود لفظ شکریہ کو دیکھئے، اصل عربی ہے مگر شکل عربی نہیں۔ اب اس سے ہم نے دو لفظ بنائے ہیں شکر اور شکریہ۔ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور انسانوں کا شکریہ۔ وہ ناشکرا ہے جو زبان کی اس توسیع کی نعمت کی قدر نہیں کرنا چاہتا ہے۔ (۱۲) ہمارے علم و فن کے ماہروں کی ایک خو ہے کہ وہ اپنے لئے کسی لفظ کو اس وقت تک علمی اصطلاح بننے کے قابل نہیں سمجھتے، جب تک اس میں بیگانہ پن اور موٹاپن نظر نہ آئے۔ مثلاً دو دریاؤں کا میل جہاں پر ہو اس کے لئے ملتقی البحرین یا دریا میں جہاں پانی پینے کے لئے جگہ ہو اس کو مورد کہیں گے، حالانکہ پہلے کو آسانی سے سنگم اور دوسرے کو پن گھٹ کہہ سکتے ہیں۔ ڈائل کو دھوپ گھڑی کی جگہ ساعت شمسیہ یا دائرہ ہند یہ کہنا ظلم ہے۔ ہمارے عوام نے ریل، جہاز، ہوائی جہاز، گھڑی، گھڑی کی سوئی سیکڑوں لفظ بنا لئے مگران کو قاموس دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوئی۔ ہم جانتے ہیں کہ علمی اصطلاحات میں دقتیں ہوتی ہیں مگر یہ آسانی سے ممکن ہے کہ اصطلاحات میں جہاں تک ہوغرابت سے بچا جائے۔ یہی حال ہندی کے بعض فاضلوں کا ہے کہ انہوں نے ہی نئی ضرورتوں کے لئے سنسکرت اور ہندی کے شبد ساگر کا غوطہ لگایا۔ موتی اورپتھر جوان کے ہاتھ آگیا، اس سے ایک مصنوعی زبان بنالی۔ میرے ایک تعلیم یافتہ ہندو دوست نے بتایا کہ ہندی کے شاعر ڈکشنری دیکھ دیکھ کر لفظ چنتے ہیں اور ان کو شعر میں باندھتے ہیں اور کہنے کے بعد وہ خود کبھی نہیں سمجھتے ہیں کہ ہم نے کیا کہا ہے۔ غرض کہنا یہ ہے کہ ہم ہندوستانی زبان کے لفظوں کے پرکھنے کی کسوٹی دوسری زبان کی ڈکشنریوں کی جگہ رواج اور چلن کو بنائیں، چلتے ہوئے سکوں کو قبول کریں اور کھوٹے کو پھینک دیں۔ آخر میں یہ کہنا ہے کہ اس ہندوستانی کو ہندومسلمانوں کی ایک زبان بنانے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں مل کر اس کو اپنائیں اور جہاں تک ہوسکے اس کو آسان اور سب کی سمجھ میں آنے والی بنانے کی کوشش کریں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہندو مسلمانوں میں آپس میں بات کرنا بھی محال ہو جائےگا۔ انگریزی کے سہارے یگانگت کا خیال پرائے مال کے بل پر دولت مند بننے کی آرزو ہے۔ حاشیے۱۔ میں نے لکھنے کو تویہ لکھا مگراردو والوں نے اس خیال سے اس تجویز کوپسند نہیں کیا کہ اس سے لفظوں کی اصلی حقیقت مٹ جائے گی مگر ہندوستانی تحریک والوں نے اس تجویز کا خیرمقدم کیا ہے۔ اب زمانہ آگے بتائے گا کہ یہ تجویز کہاں تک حسن قبول کو حاصل کرتی ہے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.