لنج وہ پائے طلب ہوں کہیں جا ہی نہ سکوں
لنج وہ پائے طلب ہوں کہیں جا ہی نہ سکوں
شل یہ ہو دست ہوس ہاتھ بڑھا ہی نہ سکوں
ضد یہ اس کو ہے جو رویا میں بھی چھپ کر جاؤں
کھول دی آنکھ نظر خواب میں آ ہی نہ سکوں
دیکھ کر حسن بتوں کا جو خدا سے پھر جائے
دل گمراہ کو پھر راہ پہ لا ہی نہ سکوں
مدد اے دست جنوں پیرہن گل کی طرح
یہ پھٹے جامۂ اصلی کہ سلا ہی نہ سکوں
یا الٰہی شب وصلت جو کہے جانے کو
پاؤں سو جائیں یہ اس کے کہ جگا ہی نہ سکوں
میں وہ غم خوار ہوں غم آنکھ کی پتلی کا تری
دانۂ خال نہیں ہے کہ جو کھا ہی نہ سکوں
حسن محفل ہے تو ہونے دو اسی خلوت میں
بند قلیان نہیں ہیں جو بلا ہی نہ سکوں
صفت سایہ وہ اک جان دو قالب ہوں میں
دور ہو لاکھ کبھی پاس سے جا ہی نہ سکوں
نظر افتادہ وہ ہوں اشک چکیدہ کی طرح
گروں آنکھوں سے تو نظروں میں سما ہی نہ سکوں
اے کماندار جو تو مجھ کو بلائے سو بار
تیر جستہ میں نہیں ہوں کہ پھر آ ہی نہ سکوں
اے صنم جو تو نہ مانع ہو تری محفل سے
غیر کیا ناز ترا ہے کہ اٹھا ہی نہ سکوں
نہ سہی وصف دہن بال تو سلجھانے دو
زلف کچھ بات نہیں ہے جو بنا ہی نہ سکوں
کھاؤں سوگند پہ سہواً قسم اے بت تری
قسمیہ بھی جو میں کھاؤں کبھی کھا ہی نہ سکوں
طعنۂ غیر سے اے ضعف جو بیٹھے دل زار
بات وہ بار گراں ہو کہ اٹھا ہی نہ سکوں
کیا تماشا ہے کہ نظروں میں ہے لیکن اے شادؔ
قرب شہ رگ میں جو ڈھونڈوں اسے پا ہی نہ سکوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |