لطف میں واں ڈھنگ ہے بیداد کا
لطف میں واں ڈھنگ ہے بیداد کا
کام دے اے خامشی فریاد کا
کیوں کہ لے تصویر اس کی دیکھیے
ہاتھ قابو میں نہیں بہزاد کا
عمر بھر رکھتا ہے پابند کمیں
صید خود اک دام ہے صیاد کا
دعویٔ باطل کی پرسش رہ گئی
کون پرساں حسرت شداد کا
دور تک اپنی نگاہیں ہیں رسا
پردہ حائل گر نہ ہو ایجاد کا
کون یاں قید تعلق میں نہیں
پا بہ گل ہے سرو سے آزاد کا
دل میں جب آئے کہ اس نے سن لیا
نارسا کیوں نام ہے فریاد کا
آپ ہی گردش سے ہے مجبور چرخ
چاہنا ایسے سے کیا امداد کا
دیکھیے کثرت سے وحدت کو تو ہے
ایک جلوہ موجد و ایجاد کا
کوہ کن نے عمر بھر کاٹا پہاڑ
میں ہوں جویا چرخ کی بنیاد کا
بچ گیا تیر نگاہ یار سے
واقعی آئینہ ہے فولاد کا
بھولا ہے دین و دنیا آدمی
خاصہ ہے یہ بتوں کی یاد کا
پہلے نفغ صور سے آ جاؤں یاں
شک نہ ہو تم کو مری فریاد کا
ضربت تیشہ تھی پتھر کی لکیر
نام مٹتا ہی نہیں فرہاد کا
خود اڑا جاتا ہوں سالکؔ ضعف سے
آہ میں طوفاں ہے قوم عاد کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |