لب جاں بخش پر جو نالہ ہے
Appearance
لب جاں بخش پر جو نالہ ہے
اب مسیحا بھی مرنے والا ہے
خون تھوکا مدام صورت زخم
دل ناصور اب تک آلا ہے
رو رہا ہوں مثل ابر بہار
دونگڑا مینہ کا ہے نہ جھالا ہے
وہ بلانوش رنج و محنت ہوں
غم کونین اک نوالا ہے
ہر قدم پر ہیں سیکڑوں پامال
سرکشوں کا چلن نرالا ہے
ہر مژہ پر رواں ہیں کودک اشک
نے سواروں کا یار سالا ہے
اشک خوں روح پر ہیں مثل شفق
رنگ کس شوخ نے اچھالا ہے
فرد اعمال نیک کاراں شادؔ
قصر فردوس کا قبالہ ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |