قول اس دروغ گو کا کوئی بھی سچ ہوا ہے
Appearance
قول اس دروغ گو کا کوئی بھی سچ ہوا ہے
واعظ جہان بھر کا جھوٹا لباریا ہے
کعبے میں جس حسیں کا لگتا نہیں پتا ہے
مل جائے بت کدے میں جو وہ صنم خدا ہے
پوجا نہ کر بتوں کو اپنی ہی کر پرستش
اے بت پرست پتلا تو بھی تو خاک کا ہے
رگ رگ میں یہ بندھی ہے گرد ملال خاطر
وہ صید ہوں کہ جس کا سب گوشت کرکرا ہے
عمر رواں ہے مثل موج رواں گریزاں
بحر جہاں میں انساں پانی کا بلبلا ہے
کرنے کو سر پھٹول جس کوہ کے درے میں
جب میں پکارتا ہوں فرہاد بولتا ہے
وہ بت نہ رام ہوگا بے رب کسی کے چاہے
اے برہمن خدا کا کیا کوئی دوسرا ہے
دنداں کے عاشقوں کے آنسو ہیں در نہیں ہیں
نکلی جو سیتلا ہے وہ بھی تو موتیا ہے
گم زار شادؔ گاہے امروز را بفردا
معلوم یہ کسے ہے کل کیا ہے آج کیا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |