Jump to content

قواعد میر/دیباچہ

From Wikisource

دیباچہ


اُردو زبان کے سنوارنے میں بہت سے اُمرا غربا آمادہ نظر آتے ہیں، ہندوستان میں بہت سی انجمنیں قائم ہو گئی ہیں؛ لیکن کام کرنے والوں کی ناواقفی اور لاعلمی اصول زبان سے ان کی ادبی خدمت بجائے نفع، نقصان پہنچا رہی ہے۔ لطف یہ ہے کہ ایسے لوگ اساتذہ ثقات دہلی و لکھنؤ سے زبان کی خدمت کے بارے میں نہ کوئی مدد لیتے ہیں نہ مشورہ کرتے ہیں، نہ زبان کو باقاعدہ حاصل کرتے ہیں۔ بعض اس زعم ناقص میں کہ ان کو اس کام کے انجام کے لیے ریاستوں اور پبلک سے خاطر خواہ دولت مل رہی ہے خوب دل کھول کر زبان کی گردن پرچُھری پھیر رہے ہیں۔ آج کل اُمرا میں جوہر شناسی مفقود ہے اس لیے انتخا ب میں غلطی ہوجانا ممکن ہے۔ ابھی ہم گورنمنٹ کے صیغۂ تعلیم کو اُردو کی غلط خدمت کا الزام دے رہے تھے کہ سر پر اور ایک تازہ مصیبت آ پڑی یعنی ہمارے ملکی بھائیوں نے خود اپنا قدم جادۂ زبان سے الگ رکھنا شروع کیا اور رفتہ رفتہ ان لوگوں کے ہاتھوں زبان کی شیرینی، فصاحت اور لطافت کا خاتمہ ہونے لگا۔ یہ ہم نہیں کہتے ہیں کہ خدانخواستہ ان کو زبان سے دشمنی ہے یا ایسا فعل یہ جان کر کرتے ہیں۔

غریب اہلِ پنجاب اُردو زبان کے زبردست حامی اور معین ہیں۔ بہت سی کتابیں دوسری زبانوں سے اُردو میں ترجمہ کیں، بہت سے اخبار جاری کیے مگر ان لوگوں نے نہ زبان کو باقاعدہ حاصل کیا اور نہ کبھی اپنی غلطیوں کی اصلاح کی کوشش کی اور نہ ان کے پاس کوئی ایسی کتاب تھی جس سے اپنی غلطیوں کو محسوس کر سکتے۔ تیسری آفت یہ پیش آئی کہ بعض ناواقفان اصول زبان نے اُردو ہندی کے جھگڑے کو اُبھار کر ہندوؤں کو اُردو زبان سے بددل کر دیا۔

غرض تمام اُردو کی خدمت کرنے والے غلط راستے پر چلنے لگے اور بعض نے امرا اور رؤساءِ ہند کو اپنا پشت پناہ پا کر خصوصیات زبان کو ایک غیر ضروری چیز سمجھ لیا۔ جب ایسی ایسی کمزوریوں کے سبب سے ان کی ادبی خدمت نامقبول ہوئی تو ہٹ اور ضد میں آکر اور ناکامیابی سے کھسیانے ہوکر لکھنؤ کا بائکاٹ کرنے لگےاور ان کے ساتھ ہندوستان کی نااہل زبان جماعت شریک ہو کر کام کرنے لگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اُردو کی ابتدا دہلی میں ہوئی، مگر چند روز کے بعد دہلی مٹی اور ایسی مٹی کہ دہلی کے تمام سرمایۂ ناز شاعر اور قلعہ معلیٰ کے شہزادے اور اعیان دولت دہلی کوخیر باد کہہ کر نواب آصف الدولہ بہادر کے سایۂ عاطفت میں آ بسے اور ایک مدت میں لکھنؤ کو دہلی بنا دیا۔ ممکن تھا کہ شاہانِ اودھ کے بعد لکھنؤ بھی مٹ جاتا اور ا س سے بھی زبان اُردو کی خدمت چھین لی جاتی مگر شاہان اودھ نے اپنے بعد بھی لکھنؤ کی سرسبزی کا کامل بندوبست کردیا تھا یعنی اپنے خاندان اور اپنے متوسلین اور اعیان دولت اور شہزادگان دہلی کی پرورش کے قابل بیش بہا وثیقہ مقرر کر دیاتھا جو ان کو نسلاً بعد نسل ملا کرے گا اور مشہور ہے کہ نواب بہو بیگم صاحبہ نے تو اپنے دھوبی اور بہشتی کی بھی تنخواہ نسلاً بعد نسل مقرر کر دی جو اب تک ملتی ہے۔ تخمیناً پانچ لاکھ روپیہ ماہوار وثیقہ لکھنؤ میں اب تک مقرر ہے۔ اس سبب سے لکھنؤ کے شرفا اور ثقات طبقے کو لکھنؤ سے باہر نکلنے کی اب تک ضرورت پیش نہیں آئی۔ اسی وجہ سے لکھنؤ اپنے ادبی وقار کو اب تک قائم رکھے ہوئے ہے اور یہاں کے اہل وثائق اپنے شہر سے باہر نکلنا گناہ سمجھتے ہیں۔ جو بنیاد ہندوستانی زبان کی ہندوستان کے مقدس بادشاہوں نے رکھی تھی اہل لکھنؤ اس کی پوری پابندی کرتے ہیں۔ مخالفین اس کی پائیداری اور دلکشی دیکھ کر سرِ ادب خم کرتے ہیں اور گو زبان سے نہو مگر صدق دل سے اس بات کا اقرار کرنا پڑتا ہے کہ بے شک لکھنؤ زبان کا دار السلطنت ہے۔

اُردو ہندی کا جھگڑا تو فضول ہے، اس لیے اول تو فی نفسہ ایک ہی زبان کےلوگوں نے دو نام رکھ لیے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہندی کی ترقی اردو کی ترقی کو مانع نہیں ہے اور اصل میں اردو ہندی کی بنیاد پر قائم ہے۔

لوگوں میں سخت غلطی پیدا ہوگئی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں جب ہم ہندوستان کے کسی گوشے میں پیدا ہوئے ہیں تو اُردو ہماری مادری زبان ہے (حالانکہ ایسا نہیں ہے ہندوستان میں سیکڑوں زبانیں بولی جاتی تھیں اور ان سب کا عطر اردو ہے)، جس طرح ہم بولیں وہی صحیح اور فصیح ہے اور جس محاورے کوہمارا جی چاہے بنالیں؛ اس خیال پر عمل کرنے سے اُردو علمی زبان نہیں بن سکتی اور وہ اپنے اصلی مرکز یعنی دہلی ولکھنؤ کی تقلید سے الگ ہو کر مٹ جائے گی اور اندیشہ ہے کہ ہندوستان کے ہر شہر اور قصبے کی زبان الگ الگ ہوجائے گی۔ ایک دوسرے کی زبان سمجھنے میں قاصر رہے گا اور تمام ہندوستان جاہلیت کی زندگی بسر کرےگا کیونکہ زبان بغیر ایک مرکز کے ہرگز ترقی نہیں کر سکتی۔ اگر ہر شہر کا مجتہد اپنا اپنا اجتہاد قائم کرے تو یہ اختلاف زبان کے برباد کرنے کو کافی ہے۔ اُردو کے روشن چہرے پر ایسا بدنما داغ آتے دیکھ کر مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں ملک کا حاکم نہ تھا کہ تحفظ زبان کا کوئی سخت قانون نافذ کرتا، نہ اس کے لیے جہاد واجب تھاکہ تلوار کھینچ کر اُٹھ کھڑا ہوتا، اور افہام و تفہیم کو وہ لوگ کیوں قبول کرتے جن کو اس مخالفت کی برکت سے فوائد حاصل ہو رہے تھے۔

خدا کے فضل سے لکھنؤ اس وقت زبان کا دار السلطنت ہے اور یہاں کے مستند ثقات اپنے وسیع معلومات سے اُردو دنیا پر حکومت کر رہے ہیں۔ بیرونی جو یہاں آتے ہیں انھیں کے فیض صحبت سے کچھ پا جاتے ہیں۔ اگر سب مل کر چاہیں تو اس غلط فہمی کا انسداد اچھی طرح ہوسکتا ہے۔ میں بیچارہ کس شمار و قطار میں ہوں جو مخالفین زبان سے مقابلہ کر سکوں مگر دل میں اُردو زبان کی محبت ہے اس لیے میرے پاس جو ٹوٹے پھوٹے چند زنگ آلود اسلحہ تھے اُنھیں سے مسلح ہو کر حفاظت زبان کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔

وہ اسلحہ چند جواہرریزے ہیں جو مجھے ملک الشعرا حضرت میر تقی میرؔ مرحوم دہلوی سے سینہ بسینہ ملے ہیں جن کی روئداد یہ ہے کہ میر دہلوی جب دہلی سے لکھنؤ تشریف لائے تو ان کے ساتھ ان کی نازک مزاجی بھی آئی۔ اس مزاج کا ناز بردارکون ہو سکتا تھا مگر ایک وصف ایسا تھا جس سے نواب آصف الدولہ بہادر جیسا جلیل القدر فیاض بھی تنک مزاجیاں اُٹھاتا تھا وہ ان کی زباں دانی تھی۔ جو لوگ ان سے نفرت رکھتے تھےوہ بھی ان کی زبان محاورے فصاحت کے غلام تھے۔ نہ ان کے پاس دنیا کی دولت تھی نہ جاہ و حشم تھا مگر صرف وہ زبان کے بادشاہ تھے اس لیے دنیا ان کی عزت کرتی تھی۔ شاگردوں کایہ عالم تھا کہ میر پر پروانہ تھےاس کا سبب یہ تھا کہ زبان کے اصول قواعد و ضوابط جیسے میر مرحوم جانتے تھے کوئی نہیں جانتا تھا اور یہ علم ان کو اپنے ماموں سراج الدین خاں آرزو سے ملا تھا۔ میر صاحب نہایت ضعیف ہوئے تو ایک روز اپنے فرزند میر محمد عسکری عرف میر کلو عرش سے فرمانے لگےبیٹا ہمارے پاس مال و متاع دنیا سے تو کوئی چیز نہیں ہے جو آئندہ تمھارے کام آئے لیکن ہمارا سرمایۂ ناز قانون زبان ہےجس پر ہماری زندگی اور عزت کا دار ومدار رہا جس نے ہم کو خاک مذلت سے آسمان شہرت پر پہنچا دیا۔ اس دولت کے آگے ہم سلطنت عالم کو ہیچ سمجھتے رہے۔ تم کو بھی اپنے ترکے میں یہی دولت دیتے ہیں، تم اس کو اپنے سینے میں محفوظ رکھو اور اپنی اولاد یا اپنےکسی شاگرد رشید کو تعلیم کر دینا۔ خدا جانےان قواعدمیں کیا استغنا بھرا ہوا تھاکہ جس کو حاصل ہوتے تھے نازک دماغ اور مُدمغ بنا دیتے تھے۔ چنانچہ جناب عرش کی ملاقات کوجب مولوی محمد حسین آزاد مرحوم لکھنؤ میں تشریف لائے تو انھوں نے اپنی نازک مزاجی سے ہمکلام ہونا بھی پسند نہ کیا اور وہ غریب عرش سے ناخوش گئے اور ان کی بدمزاجی کی شکایت لکھی۔

عرش کے شاگردوں میں سب سے اچھا کہنے والے اُستاد پرست جناب شیخ محمد جان شاد مرحوم تھے جو عمر بھر اُستاد کی خدمت غلاموں کی طرح کرتے رہے اور لیلیٰ سخن کے ایسے فریفتہ ہوئے کہ اپنی شادی بھی نہ کی۔ جناب عرش کی کوئی اولاد نہ تھی، انھوں نے اپنے تمام قواعد جو میر مرحوم سے ان کو حاصل ہوئے تھے جناب شاد کو سکھائے اور چونکہ جناب شاد مرحوم زبان میر کی پیروی پوری پوری کرتے تھے اس لیے پیرو میر ان کو خطاب عطا فرمایا۔جناب پیرو میر میرے استاد تھے اور سب کے آخر میں جس وقت ان کا سن مبارک تخمیناً سو برس کا تھا، مجھ کو ان کی شاگردی کا فخر حاصل ہوا۔ شیخ صاحب کے پرانے شاگرد جو دو چار تھے ان کا مذاق شاعری شباب کے ساتھ رخصت ہوچکا تھا، دو ایک شاگردوں کو خفا ہو کر اپنی شاگردی سے خارج کردیا تھا۔ کچھ مدت کے بعد میری خدمت اور روزانہ حاضری ملحوظ خاطر ہوئی تو مہربان ہوکر فرمانے لگے: “معلوم ہوتا ہے خدا کو تمھارے ذریعہ سے خاندان میر کا نام چلانا منظور ہے، اچھا آج سے جو قواعد ہم بیان کریں ان کو اپنے ذہن میں رکھو۔ یہ ملک الشعرا میر تقی مرحوم کی امانت ہے، اگر ان قواعد کو پیش نظر رکھ کے نظم و نثر پر قلم اُٹھاؤگے تو کوئی تمھارے کلام پر حرف نہ رکھے گا۔ یہی قاعدے تھے جو میر کو محبوب خلائق بنائے ہوئے تھے”۔ اُس دن سے میرا معمول تھا کہ روزانہ دو تین گھنٹے اُستاد کی خدمت میں بیٹھ کر اُردو کی صرفی نحوی کلیات سیکھا کرتاتھا۔ تین برس تک یہی مشق جاری رہی۔ استاد جب میرے غریب خانے پر تشریف لاتے تھے تو بھی یہی سلسلۂ گفتگو جاری رہتا۔ اس تحقیق میں ایسا مزا ملا کہ میں نے استاد کی حیات کو غنیمت شمار کر کے اس مشغلہ کو برابر جاری رکھا اور انھیں کی برکت ہے کہ مجھ کو قواعد اردو بنانے کا طریقہ معلوم ہو گیا۔ حقیقت میں یہ قاعدے علم سینہ ہی رہنے کے قابل تھے اور میرے لیے باعث اعزاز تھے مگر زمانہ کی موجودہ روش اردو کو خاک سیاہ کر رہی ہے جس کا ہندوستان کے مقتدر طبقے کو بھی افسوس ہے۔ چنانچہ اسی اردو کی حفاظت کی غرض سے ہز اگزالٹڈ ہائنیس اعلٰحضرت میر عثمان علی خاں بہادر دام احترام والی دکن نے بھی اردو عثمانیہ یونیورسٹی قائم کر کے اپنی بیش بہا فیاضی اور دریا دلی کا ثبوت دیا ہے۔ اس کی مالی خدمت شاہ دکن کر رہے ہیں لیکن ادبی خدمت ہر انسان پر اپنی حیثیت اور قدرت کے موافق واجب و لازم ہے۔

میرے دل نے یہ پسند نہ کیا کہ تلوار زیب کمر رہے اور وقت ضرورت بھی کام نہ لیا جائے۔ میں نے بھی چاہا کہ اپنی بساط کے موافق عثمانیہ یونیورسٹی کی خدمت کروں مگر ایسے اہم اور مشکل کاموں میں میری خدمت کیا مقبول ہو سکتی ہے۔ بہرحال نہ کرنے سے کرنا بہتر ہے۔اس خیال نے مجھ کو اس خدمت پر مستعد کیا اور میں اپنی خدمت کا نمونہ “قواعد میر” کے نام سے پیش کرتاہوں کہ عثمانیہ یونیورسٹی کی نیو قائم کرنے میں کچھ مدد دے۔ ان جواہر ریزوں کو میں ملک کی عام فائدہ رسانی کی غرض سے پیش کرتا ہوں اور امید ہے کہ یہ کتاب بھی میری دوسری تصانیف کی طرح مقبول عام ہوگی۔

خواجہ محمد عبد الرؤوف عشرت