قفس کی تیلیوں سے لے کے شاخ آشیاں تک ہے
قفس کی تیلیوں سے لے کے شاخ آشیاں تک ہے
مری دنیا یہاں سے ہے مری دنیا وہاں تک ہے
زمیں سے آسماں تک آسماں سے لا مکاں تک ہے
خدا جانے ہمارے عشق کی دنیا کہاں تک ہے
خدا جانے کہاں سے جلوۂ جاناں کہاں تک ہے
وہیں تک دیکھ سکتا ہے نظر جس کی جہاں تک ہے
کوئی مر کر تو دیکھے امتحاں گاہ محبت میں
کہ زیر خنجر قاتل حیات جاوداں تک ہے
نیاز و ناز کی روداد حسن و عشق کا قصہ
یہ جو کچھ بھی ہے سب ان کی ہماری داستاں تک ہے
قفس میں بھی وہی خواب پریشاں دیکھتا ہوں میں
کہ جیسے بجلیوں کی رو فلک سے آشیاں تک ہے
خیال یار نے تو آتے ہی گم کر دیا مجھ کو
یہی ہے ابتدا تو انتہا اس کی کہاں تک ہے
جوانی اور پھر ان کی جوانی اے معاذ اللہ
مرا دل کیا تہ و بالا نظام دو جہاں تک ہے
ہم اتنا بھی نہ سمجھے عقل کھوئی دل گنوا بیٹھے
کہ حسن و عشق کی دنیا کہاں سے ہے کہاں تک ہے
وہ سر اور غیر کے در پر جھکے توبہ معاذ اللہ
کہ جس سر کی رسائی تیرے سنگ آستاں تک ہے
یہ کس کی لاش بے گور و کفن پامال ہوتی ہے
زمیں جنبش میں ہے برہم نظام آسماں تک ہے
جدھر دیکھو ادھر بکھرے ہیں تنکے آشیانے کے
مری بربادیوں کا سلسلہ یارب کہاں تک ہے
نہ میری سخت جانی پھر نہ ان کی تیغ کا دم خم
میں اس کے امتحاں تک ہوں وہ میرے امتحاں تک ہے
زمیں سے آسماں تک ایک سناٹے کا عالم ہے
نہیں معلوم میرے دل کی ویرانی کہاں تک ہے
ستم گر تجھ سے امید کرم ہوگی جنہیں ہوگی
ہمیں تو دیکھنا یہ تھا کہ تو ظالم کہاں تک ہے
نہیں اہل زمیں پر منحصر ماتم شہیدوں کا
قبائے نیلگوں پہنے فضائے آسماں تک ہے
سنا ہے صوفیوں سے ہم نے اکثر خانقاہوں میں
کہ یہ رنگیں بیانی بیدمؔ رنگیں بیاں تک ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |