Jump to content

قصۂ زیست مختصر کرتے

From Wikisource
قصۂ زیست مختصر کرتے
by فانی بدایونی
299778قصۂ زیست مختصر کرتےفانی بدایونی

قصۂ زیست مختصر کرتے
کچھ تو اپنی سی چارہ گر کرتے

موت کی نیند سو گئے بیمار
روز کس شام کو سحر کرتے

سچ ہے ہر نالہ کیوں رسا ہوتا
میرے نالے تھے کیوں اثر کرتے

خود وفا کیا وفا کا بدلہ کیا
لطف احسان تھا اگر کرتے

کر لیا تیرے نام پر سجدہ
اب کہاں قصد سنگ در کرتے

آس ہوتی تو اس سہارے پر
صبر ممکن نہ تھا مگر کرتے

کاش آئینہ ہاتھ سے رکھ کر
تم مرے حال پر نظر کرتے

طول روداد غم معاذ اللہ
عمر گزری ہے مختصر کرتے

غم نے مہلت نہ دی کہ ہم فانیؔ
اور کچھ دن ابھی بسر کرتے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.