قصہ تو زلف یار کا طول و طویل ہے
Appearance
قصہ تو زلف یار کا طول و طویل ہے
کیوں کر ادا ہو عمر کا رشتہ قلیل ہے
گنجائش دو شاہ نہیں ایک ملک میں
وحدانیت کے حق کی یہی بس دلیل ہے
مشہد پہ دل کے دیدۂ گریاں پکار دے
پیاسا نہ جا بنام شہیداں سبیل ہے
نظریں لڑانے میں وہ تغافل ہے خوش نما
جس طرح سے پتنگوں کے پنجوں میں ڈھیل ہے
ایمانؔ کیا بیاں کروں اس شہسوار کا
حاضر جلو کے بیچ جہاں جبرئیل ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |