قریۂ ویراں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قریۂ ویراں
by مختار صدیقی
330637قریۂ ویراںمختار صدیقی

جھلسے پیڑ جلی آبادی کھیتی سوکھی خرمن راکھ
ہست و بود کا مدفن راکھ
گرتے بام و در کے لیے گلیوں کا آغوش
جیسے یہ دیواروں کو تھے کب سے وبال دوش
بار ہٹا تو آیا ہوش

پنگھٹ اور چوپال بھی سونے راہیں بھی سنسان
گلیاں اور کوچے ویران
جھونکے سوکھے پتے رولیں بکھری راکھ اڑائیں
راکھ اور پتے بن کے بگولے اپنا ناچ دکھائیں
اور وہیں رہ جائیں

یہ بستی اب توڑ چکی ہے ہستی کی زنجیر گراں
اور قیود زمان و مکاں
وقت کے ڈاکو چکر اس کو بساط مطابق لوٹ چکے
اس کے لیے ماحول و فضا کے سارے بندھن ٹوٹ چکے
ماضی و حال بھی چھوٹ چکے

کون آئے جو آ کر اس میں زیست کے رنگ بھرے
کھیتوں کو سرسبز کرے
گلی گلی اور کوچہ کوچہ پنگھٹ اور چوپال
کھیلتے بچوں ہنستی جوانی سے کر دے چونچال
زندہ کر دے ماضی و حال

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse